مرزا غالب کا فلسفہ حیات
انسان دوستی مرزا غالب کے فلسفۂ حیات کی بنیادی شر ط ہے ۔غالب کا انسان گناہ گار ، خطا کار مگر صداقت کا متلاشی ہے ۔مرزا غالبؔ زُہد اور تقویٰ کو انسان کی اصلی خوبی نہیں مانتے ۔عبادت بجائے خود راست بازی کی ضمانت نہیں ۔جو لوگ عبادت میں تمام وقت صرف کرتے ہیں مگر انسان کے دکھوں سے آنکھیں بند رکھتے ہیں وہ ان لوگو ں سے بدتر ہیں جو عبادت کے پابند تو نہیں لیکن لوگوں کے دکھ سکھ کا خیال رکھتے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ غالب ؔ نے اپنے اشعار میں اسی وجہ سے کٹر پنھتیوں پر چوٹیں کی ہیں۔ ملائیت انسان کو فریبِ زہد میں مبتلا کر کے بھر پور زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیتی ہے ۔خوشیوں پر پہرے بٹھا دیتی ہے۔ اپنی اجارہ داری قائم کرتی ہے ۔اور آزاد انسان کو غلام بننے پر رضا مند کر لیتی ہے اور لوگ بڑی خوشی سے سگ ِ در بار عالیہ بن جاتے ہیں ۔دوسری طرف مصائب و آلام انسان کو پختہ تر بنا نے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ،کبھی انسان اشک ہائے ندامت سے دامن کو دھو لیتا ہے ۔شاید یہی تو بہ کا فلسفہ ہے ۔ غم و آلام ہی کبھی شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ فزائی کرتے ہیں ۔یوں انسان کا ئنا ت کا محور بن جاتا ہے ۔غالب کے فلسفۂ اخلاق میں ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس نے کبھی مسلم مفکرین کی طرح آنے والی دنیا کی فکر کی تلقین نہیں کی بلکہ عالم آب و گل کے دکھ درد کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مرزا غالب چونکہ قدیم و جدید کے دور اہے پرکھڑے تھے اس لیے کشمکش کا شکار تھے ۔ان کی شاعری اس کشمکش کی آئینہ دار ہے ۔ترک و اختیار کی کشمکش میں مایوس نہ ہونا اور راستہ تلاش کرلینا دراصل پنا ہ گا ہ تلاش کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ’’غالبؔ کے خیالات جدید و قدیم نظریوں کی کشمکش کے آئینہ دار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان میں گہرا تضا د بھی موجو دہے ۔اس طرح ان کے خیالات کی حیثیت عبوری ہے۔ ‘‘ ہم اس حقیقت کا ذکر پہلے ہی کر چکے ہیں کہ مرزا غالبؔ گوئٹے کا ہم عصر تھا ۔اب ذرا پشکن اور ٹالسٹائی کے متعلق بھی جا نکاری ہو جائے ۔ ’’غالب گوئٹے اور پشکن کے ہم عصر تھے۔ غالب کی ابتدائی شاعری لگ بھگ اسی دور کی تخلیق ہے جب پشکن نے اپنی معروف کتا ب ‘‘سار کوئے سیلو کی، کی یادیں ‘‘لکھی تھی ۔غالب ؔ ٹالسٹائی کے بھی ہم عصر تھے ۔مرزا غالب کا انتقال اسی سال ہو اجس سال عظیم روسی ادیب نے اپنی معروف کتا ب جنگ اور امن (War and Peace)مکمل کی۔ ‘‘ گویاغالب کے فلسفۂ اخلاق میں ترقی پسند رحجانات کا سراغ بھی ملتا ہے ۔اس قسم کے ترقی پسند خیالات انیسویں صدی کی ابتدامیں ہندوستان کی سماجی فضامیں نمودار ہونے لگے تھے۔اگرچہ معاشرہ اپنی سماجی نفسیات میں بھی جاگیر ی تھا جہاں علماء اور اشرافیہ انسان کو بے حقیقت اور حقیر ہونے کا درس دیتے تھے ۔جاگیر دار کمزوروں کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھتے تھے ۔گو کہ وہ خود بھی جا ہ وحشمت سے محروم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے اور ان کے رحم وکرم کی چھتری تلے پنا ہ لینے پر مجبور تھے ۔سامراجی حکمران بھی ہندوستان کے لوگوں کو حقیر سمجھتے تھے اور جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے ۔ہر درخواست گذار کو کمتر لکھنا پڑتا تھا ۔غلام روحوں کے اس معاشرے میں انسان کی عظمت کا ذکر کرنا ایک غیر معمولی بات تھی۔مرزا غالب ؔنے انسان کی عظمت و سربلندی کے معاملے میں نہ تو سامراجی قوتوں سے سمجھو تہ کیااور نہ ہی مقامی اشرافیہ اور تھیا کریسی سے ۔ ایک روسی مصنف بابا غفوروف لکھتے ہیں:’’غالب کا اصول یہ تھا کہ دنیا کے باد شاہوں کے سامنے توکیا خود خالق کے سامنے بھی سر نہیں جھکانا چاہیے ۔محرومیاں اور بد نصیبیاں انہوں نے کم نہیں دیکھیں لیکن انہیں کسی چیز کا افسوس نہیں تھا ۔وہ اس خدا سے بھی برابر والوں کی طرح بات کرتے تھے جو اس کے اعمال کا حساب لے گا ۔مذہبی رواداری، عام لوگوں سے گہری دل چسپی ،وہ چاہے کسی خدا کی پر ستش کرتے ہوں ،غالب ؔ کے فلسفہ ٔ حیا ت کی بنیادی خصوصیت ہے ‘‘۔ (پروفیسر نواز صدیقی کی کتاب، غالب خستہ کے بغیر،سے اقتباس)
@Mamin Mirza
Bookmarks