ہوا میں اڑتے ہوئے بادباں نہیں گزرے
برستے بادلوں کے کارواں نہیں گزرے
وہ بدگمانی کی پرچھائیوں میں رہتا ہے
ادھر یقیں کے کبھی سائباں نہیں گزرے
میں جنکی آنکھوں میں سب اپنے خواب رکھ دیتی
مِری نگاہ سے وہ مہرباں نہیں گزرے
محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے
کہ دشتِ چشم سے آبِ رواں نہیں گزرے
جہاں بھی چاہے اڑا کر مجھے وہ لے جائے
صدا کی لہر سے ایسے گماں نہیں گزرے
مئے حیات کی تلخی سبھی کا حصہ تھی
جو میرے جیسے تھے تشنہ لباں، نہیں گزرے
تِری صدائے مسلسل کی گونج تھی، پھر بھی
تِرے خیال پہ کیا کیا گماں نہیں گزرے
ناہید ورک
Bookmarks