میری یادداشتیں
رشید امجد
کہتے ہیں تقسیم سے پہلے پنجاب کے چار کالج بہت مشہور تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ کالج اٹک، مرے کالج سیالکوٹ اور گورڈن کالج راولپنڈی۔ قومیائے جانے تک گورڈن کالج بغیر کسی شک و شبہ کے اس علاقہ کی سب سے بڑی اور معیاری درس گاہ تھا۔ اس کا انتظام مشنری ادارے کے تحت تھا اور یہاں کا طالب علم ہونا ایک قابلِ فخر اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ میرے زمانے میں اس کے پرنسپل آر آر سٹورٹ تھے جو بین الاقوامی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ڈسپلن کا بھی یہ حال تھا کہ جب وہ دفتر سے نکلتے تو پورے کالج میں ہو کا عالم ہو جاتا۔ کسی بھی کلاس میں داخلہ ملنے میں کوئی مشکل نہیں تھی کہ ادارے شہر کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے کم تھے۔ اب جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔ ان میں سے اچھے بھی ہیں اور برے بھی لیکن وہ تعلیمی ماحول اور علمی فضا موجود نہیں جو ان پرانے اداروں کی پہچان تھی۔ یہ بوڑھے برگد اپنی چھائوں تقسیم کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ اب ان کے نام ہی باقی رہ گئے ہیں، لیکن یہ نام قابل ِاحترام ہیں اور وہ شخصیات بھی جنہوں نے اپنے زمانوں میں ان اداروں کی آبیاری اپنے خون سے کی۔ پنڈی کی ادبی علم تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ٭٭٭ ہمارے ادیبوں شاعروں کی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہیں اور بعض اوقات تو وہ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ شرم آتی ہے۔ صاحبانِ اقتدار کی خوشامدو چاپلوسی کے کئی واقعات ایسی ادبی محفلوں میں نظر آ جاتے ہیں، جہاں کوئی بڑی سماجی شخصیت مہمان یا صدر کی حیثیت سے موجود ہو۔ ایک خاتون ثاقبہ رحیم الدین ہیں، ڈاکٹر ذاکر حسین کی بھتیجی اور ڈاکٹر محمود حسین کی صاحبزادی، علمی خا نوادے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ادبی ذوق رکھتی ہیں، لیکن درمیانے درجے کی لکھنے والی ہیں۔ ان کے میاں جنرل رحیم الدین بلوچستان کے گورنر بھی رہے ہیںاور ضیا ء الحق کے سمدھی بھی ہیں، اس حوالے سے ثاقبہ رحیم الدین کی سماجی حیثیت تو بہت تھی اس لئے اکثر تقاریب میں انہیں صدر یا مہمانِ خصوصی بنایا جاتا۔ مقتدرہ قومی زبان کے ایک خالص علمی فنکشن میں وہ مہمان خصوصی اور ڈاکٹر سید عبداللہ صدر تھے۔ مہمان خصوصی نے صدر سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ مائیک پر آئے تو انتہائی عجز سے بولے ’’اتنی بڑی سکالر کی اس علمی گفتگو کے بعد میں کیا عرض کروں۔ ‘‘ پھر انہوں نے ثاقبہ رحیم الدین کی شا ن میں دیر تک قصیدہ خوانی کی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوست نے میرے کان میں کہا ’’اس بڈھے سے پوچھو اب تم نے کیا لینا ہے۔ عزت، شہرت، مقام سب کچھ تمہارے پاس ہے، اب ایسی خوشامد کیوں کر رہے ہو۔‘‘ ڈاکٹروحید قریشی کے بارے میں میری رائے بہت اچھی ہے اور میرے خیال میں وہ ایک سچے اور کھرے شخص ہیں اور اس کھرے پن کی سزا بھی انہوں نے بھگتی ہے، لیکن تعریف و توصیف میں وہ بھی پیچھے نہیں۔ یہ شاید ان کی نوکری کی مجبوری ہواور ڈاکٹر جمیل جالبی کو بھی میں نے اس دربار میں سرنگوں دیکھا۔ خاتون ہونے کے حوالے سے عزت و تکریم اپنی جگہ لیکن علمی محافل اور گفتگو میں بہر حال معیار علمی ہی ہونا چائیے ۔ (کتاب ’’ عاشقی صبر طلب‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
Bookmarks