اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری
آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزریمیں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزریمیری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری
Bookmarks