google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: ڈاکٹر وزیر آغا

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      ڈاکٹر وزیر آغا



      رشید امجد
      وزیر آغا ان لوگوں میں سے ہیں جن کو میں اپنا ادبی استاد سمجھتا ہوں۔ پچھلے چند برسوں سے وزیر آغا ،لاہور میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ اس دوران مہینے میں ایک آدھ بار سر گودھے کا چکر لگا آتے، لیکن کچھ عرصہ سے یہ جانا بھی موقوف ہو گیا تھا۔ لاہور انہیں مزاجاً پسند نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں رہ کر مجلسی مصروفیات زیادہ ہو جاتی ہیں اور لکھنے پڑھنے کا کام کم ہوتا ہے، لیکن آخر آخر وہ اپنے کمرے تک محدود ہو گئے جسے وہ اپنا برگد کہتے تھے۔ وزیر آغا سے میری پہلی پہلی ملاقاتیں ساٹھ کی دہائی میں ہوئیں۔ ابھی ’’اوراق‘‘ نہیں نکلا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ماہ کے لئے مری آتے تھے۔ سرگودھا سے ٹرین علی الصبح راولپنڈی پہنچتی تھی۔ آغا صاحب فیملی کے ساتھ درجہ اوّل کے ویٹنگ روم میں ٹھہر جاتے اور وہاں سے سہ پہر کو مری جاتے۔ اس دوران میں اور دوسرے نوجوان لکھنے والے وہاں آجاتے اور ان سے مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ اکثر ہم دوپہر کا کھانا وہیں، ان کے ساتھ کھاتے۔ ابھی قاسم آغا جھگڑا شروع نہیں ہوا تھا، اس لئے گفتگو خالصتاً ادبی و فکری موضوعات پر ہوتی۔ گفتگو کیا ہوتی ، آغا صاحب بولتے رہتے اور ہم سنتے رہتے۔ مولانا صلاح الدین کے اچانک انتقال پر ’’ادبی دنیا‘‘ وقتی طور پر بند ہو گیا۔ آغا صاحب اس کے شریک مدیر تھے۔ مولانا کے انتقال پر ان کے بیٹوں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے آغا صاحب ’’ادبی دنیا ‘‘ سے علیحدہ ہو گئے اور دل برداشتہ سرگودھا آ گئے۔ شہزاد احمد نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنا پرچہ نکالیں۔ ’’اوراق‘‘ کا نام بھی شہزاد احمد نے تجویز کیا۔ ’’اوراق‘‘ جنوری 66ء میں شائع ہوا۔ اس کے پہلے اداریے نے ادبی قومیت کا باقاعدہ تصور پیش کیا۔ اس سے پہلے آغا صاحب کے ایک مضمون ’’میرا جی … دھرتی پوجا کی ایک مثال ‘‘ نے لفظ دھرتی کے حوالے سے متنازع بحث کا آغاز کر دیا تھا، لیکن ستمبر65ء کی جنگ نے سرحدوں کے تقدس کا جو نیا احساس پیدا کیا اُس نے پاکستانی ادب میں پہلی بار زمین کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ پاکستانی ادب کا اوّلین نعرہ حسن عسکری اور ممتاز شیریں نے بلند کیا تھا ،لیکن یہ تصور بنیادی طور پر ترقی پسندوں کو رد رکرنے کے لئے تھا، دوسرے اس حوالے سے ایک بھی تخلیقی شے وجود میں نہیں آئی، چنانچہ کچھ ہی عرصہ بعد یہ صرف ایک تاریخی بحث کے طور پر اپنی موت آپ مر گیا۔ اس کے برعکس وزیر آغا کا ادبی قومیت کا تصور زمین اور اس کے مظاہر کے حوالے سے تھا اور پاکستانی ادب کی وہ نظریہ سازی تھی، جو آج اپنے مکمل وجود کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ وزیر آغا نے ’’اوراق‘‘ کے ذریعے نہ صرف جدید یت کی فکری وفنی حد بندی کر کے اسے ایک سمت عطا کی بلکہ ساٹھ کی دہائی میں سامنے والی نئی نسل کی ذہنی، فکری و فنی تربیت بھی کی۔ ’’اوراق‘‘ کے اداریے اس ضمن میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’اوراق‘‘ کا ایک مستقل سلسلہ ’’سوال یہ ہے ‘‘ اور فلموں اور ا فسانوں کے تجزیاتی مطالعے اس پر چے کی انفرادیت کی دلیل تھے۔ آغا صاحب کہتے تھے کہ کسی پرچے کو پوسٹ آفس نہیں ہونا چائیے کہ جو وچھ ملا اسے آگے پہنچا دیا بلکہ اس میں اس کے مدیر کے فکری رجحانات و رویوں کا مکمل احساس ہونا چاہئے ، اس کی ایک سمت ہونا چائیے۔ ’’اوراق‘‘ میں دونوں پہلو موجود تھے۔ ساٹھ کی نئی لسانی تشکیلات سے متاثر جس نسل نے نئے افسانے اور نئی شاعری کا آغاز کیا تھا، اس میں ابتداً بڑی افراط و تفریط تھی۔ نئے لوگوں کو کوئی پرچہ چھاپنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ’’اوراق‘‘ نے نہ صرف اس نئی نسل کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ ان کی تربیت بھی کی۔ وزیر آغا نقاد، شاعر اور جدید انشائیہ کے بانی تھے۔ تنقید میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ وہ ایک صاحب مطالعہ شخص تھے۔ ان کا مطالعہ صرف ادب تک محدود نہیں تھا۔ انہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا تھا، لیکن ان کی دلچسپی کے دائروں میں سائنس خصوصاً فزکس شامل تھی۔ ان کی تحریروں میں اس وسیع مطالے کی جھلکیاں جابجا موجود ہیں۔ انہوں نے اُردو تنقید کو نئے لہجے اور نئے فکری رویوں سے آشنا کیا۔ وہ امتزاجی تنقید کے نئے دبستان کے بانی ہیں۔ مطالعے کا شوق آخردم تک ان میں موجود رہا۔ میں آخری بار جب بائیس جولائی کو ان سے ملا تو ان کا بیڈ کتابوں سے بھرا ہوا تھا، صرف سونے کے لئے تھوڑی سی جگہ خالی تھی۔ وہ نہ صرف باہر سے کتابیں منگواتے بلکہ ملنے والے ہر برچے اور کتاب کو پڑھتے۔ ا ن کی خوبی تھی کہ اپنے مطالعے میں دوستوں کو بھی شریک کرتے۔ ان کے خلاف جب منظم ادبی محاذ بنایا گیا تو کوئی نہ کوئی انہیں خوش کرنے کے لئے مخالفوں کا ذکر کرتا، وہ عموماً خاموش رہتے اور دوسرے اس موضوع پر بات کرتے رہتے۔ ٭…٭…٭




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: ڈاکٹر وزیر آغا

      Nice Sharing
      Thanks for sharing


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: ڈاکٹر وزیر آغا






      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •