سام رووی / منور آکاش
مسلسل چلتے جانا کتنا مشکل کام ہے کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں میں زندگی میں اتنا آہستہ پہلا کبھی نہیں چلا مسلسل لگن کے ساتھ ایک پائوں کے آگے دوسرا پائوں رکھتے ہوئے میرے ذہن میں صرف ایک سوال تھا کہ میں کبھی رکوں گا نہیں۔ ہمت کرو صرف چند قدم اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ تھا جو میں نے خود سے بولا تھا شاید یہ سب سے سخت جان کام تھا جو میں نے آج تک کیا بھاری قدم اٹھاتے ہوئے بمشکل خود کو سنبھالے ہوئے تھا۔ میں اس جگہ سے فرار ہونا چاہتا تھا جسے میں نے کبھی اپنا گھر کہا تھا۔ میرے کپڑے شدید گیلے ہونے کی وجہ سے بھاری محسوس ہو رہے تھے اچانک میں نے اپنی سانسوں کی طرف دھیان دیا جو مشکل سے میرے اندر اتر رہی تھیں۔ میری آنکھیں چند ھیا گئی تھیں اور مجھے ہر طرف ملگجے مناظر دکھ رہے تھے۔ میں نے پیچھے کی طرف اٹھنے والے گرد کے ایک بڑے سے ہیولے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنے سرکو مو ڑ نے کی کوشش کی مگر میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ بمشکل میں نے اپنے سرکو کندھے کی طرف تھوڑا سا گھمایا اور آنکھوں کے کونے سے پیچھے کی طرف ہلکی سی جھلک دیکھنا چاہی مگر شدید درد نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ میرے منہ سے ایک آہ نکلی اور ایک جھٹکے سے اپنے سر کو آگے کر لیا۔ بارش مسلسل ہو رہی تھی۔ بدبو دار بارش، ہر قطرہ زمین پر گرنے کے بعد دھویں کی ایک لہر کی طرح اوپر اٹھتا یا میرے بھاری ہوتے ہوئے کپڑوں میں جذب ہو جاتا۔ بجری میرے بچے کھچے جوتوں کے نیچے چرمرا رہی تھی۔ مگر میں بجری کی آواز نہیں سن رہا تھا۔ میرے کانوں میں خوفناک دھماکے کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔ فصلوں کے درمیان غیر ہموار اور سرخ راستے پر میں پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل آگے کی طرف چل رہا تھا۔ سفید چمکتے ہوئے ٹکڑے یقینا جسم کے کسی کمزور حصے کی ہڈی ہو سکتی ہے۔ میں اس کو بغور دیکھنے کے لئے رک گیا مجھے فوراً احساس ہوا کہ مجھ سے بہت سخت غلطی ہو چکی ہے۔ میں ایک بار رُک گیا تو پھر کبھی آگے نہیں بڑھ پائوں گا۔ میں نے کوشش کی مگر اب یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ کانوں میں مسلسل گونجتا شور اس لمحے کچھ کم ہوا تو ایک آواز آئی، یہ آواز اسی جسم سے آرہی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ ابھی مرا نہیں ہے بھاگو اس جسم سے آواز آئی۔ شاید یہ جسم کسی عورت کا ہے میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی میں نے آنکھوں کی سمت مڑنے کی کوشش کیایک نیا مقصد مجھے ہمت دے رہا تھا۔ اب مجھے اس جسم سے دور بھاگنا ہے۔ میں نے اپنے اندر تمام طاقت کو جمع کیا اور ایک قدم آگے کی طرف بڑھایا ۔زمین پر پڑے اس جسم کی اس آنکھوں کی بے ترتیبی نے مجھے ایک امید کے ساتھ جوڑ دیا۔ میں نے ایک اور قدم بڑھایا۔ پھر ایک اور میں نے اپنے سر کو جھٹکا اور آنکھوں کو بند کر لیا میں نے لنگڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھی۔ میں اپنے جسم پر بارش کو شدت سے محسوس کر رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ میرے کپڑے گھل جائیں گے۔ میں نے اپنا سفر جاری رکھا میں نے نیچے کی طرف دیکھا میرے جوتوں کے کچھ ٹکڑے اب بھی میرے پائوں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ روح کے محافظ میں نے سوچا اور اپنے اس چھوٹے سے لطیفے پرنحیف سی مسکراہٹ کے ساتھ خود کو شاباش دی۔ شاید میرے جوتے میرے آخری اتحادی ثابت ہونگے ۔ آخر کار میں ان پر بھروسہ کر سکتا تھا لیکن نہیں وہ بھی میرے پائوں سے الگ ہو گئے۔ بارش ڈنک مارتی ہے میں نے اپنے بازو کی طرف دیکھا جہاں بارش کے قطرے گرے وہاں بے شمار سرخ دھبے نمودار ہو رہے تھے۔ گرم، سخت، ترش بارش خوفناک طاقت کے ساتھ میرے نتھنوں پر حملے کر رہی تھی۔ میں نے ہوا کے لئے منہ کھولا، منہ میں بارش کا تلخ ذائقہ محسوس ہوا۔ میری آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ ہوا میں میرا پسینا گھلنے لگا۔ اس صورت حال سے خود کو بچانے کے لئے اپنے منہ کو ہوا سے بھر لیاکہ شاید اس ڈرائونے خواب کی دیواروں کو توڑ سکوں۔ میں نے اپنے بازوں کو دور تک لہرایا اور اپنا توازن کھو بیٹھا۔ کسی پتھر سے ٹکرا کے زمین پر جا گرا میرے ہاتھوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس کو تھام سکتا۔ دھڑام سے گرنے کی وجہ سے ایک شدید درد کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا ایک مقدس جگہ کا احساس مگر میں اس سے فرار ہونا چاہتا تھا۔ میں شہر کے ٹوٹنے پھوٹنے سے پہلے فرار ہونا چاہتا تھا۔ میںنے ایک بازو کو پھیلایا اور بمشکل ایک ہاتھ میں کچھ بجری پکڑ پایا۔ میں نے خود کو تھوڑا اوپر اٹھایا اور مسلسل آگے کی طرف کہنیوں کے بل گھسٹنا شروع کیا ایسا محسوس ہو رہا تھا میں اب تک کہنیوں کے بل ہی چلتا آیا ہوں انچ انچ کر کے میرے جسم سے مختلف حصوں میں رستا ہوا درد ختم ہو گیا۔ میں پکڑا جا چکا تھا اور بس ! سیاہ خون میرے سامنے زمین پر بکھرا ہوا تھا۔ میں اپنی پشت کی طرف مڑا میرے ذہن میں ایک ہی خیال تھا ایک خوفناک ہاتھ میرے چہرے کے عین سامنے تھا ۔ میں نے صاف دیکھا کہ بڑی سی انگلی میری ہڈی کے اندر گھس رہی ہے۔ میرا ہاتھ ایک طرف گر گیا۔ بارش میری آنکھوں میں بھر نے لگی میں مزید کچھ اور نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس وقت میں صرف بارش کو اپنے جسم کے اس خالی حصے کو بھرتے ہوئے محسوس کر سکتا تھا۔ ایک خاص شدت اور تواتر کے ساتھ بارش بہت زور سے ڈنک مارتی ہے۔ آخری وقت میرے ذہن میں صرف یہی خیال تھا کہ یہ مجھ پر نازل ہونے والی موت نہیں ہے۔