انسانوں کے ذہنی رویوں کے ذریعے مختلف انسانی امراض کے علاج کے عظیم ماہر تھامس ٹوارڈ (Thomas Toward) کا تعلق بیسویں صدی کے ابتدائی زمانے سے تھا۔ قدیم زمانے میں بحری جہاز لکڑی سے تیار کیے جاتے تھے اور وجہ اس کی یہ بتائی جاتی تھی کہ لکڑی پانی میں تیرتی رہتی ہے جبکہ لوہا پانی میں ڈوب جاتا ہے، لیکن اس عہدجدید میں تمام دنیا میں بحری جہاز لوہے سے تیار کیے جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے تیرنے کے اصول کا مطالعہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ کوئی بھی ایسی چیز پانی میں تیر سکتی ہے جس کا حجم اس کے نیچے موجود مائع سے کم ہو۔ اسی لیے آج کے اس جدید دور میں قانون کے تحت ہم لوہے کو پانی پر تیرا سکتے ہیں جبکہ اس سے پہلے یہ لوہا پانی میں ڈوب جایا کرتا تھا، لہٰذا آپ کی جو بھی مرضی اور خواہش ہے، اس سے ربط قائم کرنے کے حوالے سے ذیل میں درج مندرجات کا مطالعہ کرنے اور انہیں عملی طور پر نافذ کرنے کے تناظر میں یہ مثال اپنے ذہن میں رکھیں۔ تھامس ٹوارڈ کے مقولے میں سب سے زیادہ اہم لفظ غوروفکر ہے یا پھر آپ اپنے خیالات کس طرح بدلتے ہیں اوریہ دونوں چیزیں اس وقت بہت اہمیت رکھتی ہیں جب آپ قوتِ ارادی کی عظیم توانائی استعمال کرنے کا آغاز کر دیتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ لازمی طور پر قوتِ ارادی کے ساتھ ربطہ قائم کرنے کے قابل ہو جائیں اور اگر آپ قوتِ ارادی کے ساتھ اپنا ربطہ قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اس ناکامی کے امکانات پر بھی غور نہیں کرتے تو پھر آپ نہ تو قوتِ ارادی کے متعلق فہم و آگہی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ ربط پیدا کر سکتے ہیں، اگر ہم اپنی زندگی میں محرومیوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز کیے رکھیں تو آپ اپنے خالق حقیقی کے مانند نہیں بن سکتے اور اپنے اس خالق کی خوبیاں اپنے وجود میں سرایت نہیں کر سکتے۔ اگر آپ خوابیدہ اور پوشیدہ امور پر ابھی بھی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تو پھرآگہی اور بصیرت کی قوت و توانائی کو دریافت نہیں کر سکتے۔ اپنی مرضی ا ور خواہش کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو بدلنے اور تبدیل کرنے صلاحیت اور آمادگی سے سرفراز ہو جائیں تاکہ آپ کے اندر کی دنیا یعنی آپ کی روح اور جذبہ قوتِ ارادی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔ اس دور میں ہونے والی ہر نئی یجاد جسے آپ دیکھتے ہیں اور بغیر کسی پس و پیش کے اسے استعمال بھی کر لیتے ہیں، اس کو کسی شخص نے یہ غوروفکر کرتے ہوئے ایجاد کیا اس کے ذریعے وہ اپنی ذات کا اظہار کیسے کر سکتا ہے۔ رائٹ برادران (Wright Brothers) اس تصور میں نہیں کھوئے رہے کہ چیزوں کو زمین پر کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے بلکہ وہ اس امر پر غور کرتے رہے کہ چیزوں کو ہو امیں کیسا اڑایا جا سکتا ہے، اسی طرح گراہم بیل (Graham Bell) محض اس فکر میں مبتلا نہیں رہا کہ چیزوں میں بے ربطی کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ اس کی توجہ اور غوروفکر کا مرکز یہ امر تھا کہ مختلف چیزوں کے درمیان مواصلات کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے۔ تھامس ایڈیسن (Thamas Edison) نے اشیاء کے تاریک پہلو پر ہرگز غور نہیں کیا بلکہ اس نے ہمیشہ اشیا کے روشن پہلو پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اگر آپ چاہتے کہ آپ کا کوئی خیال یا تصور حقیقت میں تبدیل ہو جائے تو پھر آپ اپنی محرومیوں پر کڑھنے کی بجائے اپنے مقصد حیات کو پانے کی کوشش کریں تاکہ کامیابی آپ کے قدم چومے۔ اس کے بعد آپ کی خواہشات معدوم ہونے کے بجائے منظرعام پر آ جائیں گی۔ ظہورپذیری کا قانون تیرنے کے اصول کے مانند ہے اور آپ کو چاہیے کہ اسے اپنے لیے ناکارہ سمجھنے کے بجائے اپنے لیے کارآمد سمجھیں اور آپ یہ مقصد صرف اسی صورت ہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب آپ اپنے اور اس ان دیکھے اور بے صورت عالم توانائی یعنی قوتِ ارادی کے ساتھ تعلق استوار کرلیں۔ (ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر کی تصنیف قوتِ ارادی سے ماخوذ) ٭٭٭ -
Bookmarks