سلطان مقصود
اس صدی کے تیسرے دھے (دہائی) کی بات ہے کہ مرحوم تاثیر نے ایک فرشی مشاعرے کے لیے علامہ ؒ سے ایرانی قالین مانگنے کے لیے مجھے اور مرحوم محمود نظامی کو بھیجا۔ اہل زبان کی تقلید میں ایسے مشاعرے ہوا کرتے تھے۔قالین بچھ جاتے تھے۔ گائو تکیے لگ جاتے تھے۔ طشتری میں گلوریاں شعرائے کرام کو پیش ہوتی تھیں۔ کلام شمع کی روشنی میں پڑھا جاتا تھا۔ ایسے مشاعرے اکثر طرحی ہوتے تھے۔ تاثیر مرحوم قلم برداشتہ غزلیں لکھ کر تین چار بنائوٹی شعراء کے حوالے کر دیتے تھے۔ جو عرض کیا ہے سے مقطع تک لپک لپک کر سنایا کرتے تھے اور بڑی بہادری سے جھک جھک کر اور کورنش بجا لا کر داد وصول کرتے تھے۔ میں بھی ان دلاور دُرزوں میں سے ایک تھا اور مزید ستم یہ تھا کہ میں ہی ترنم سے مشاعرے کا اختتام کرتا تھا۔ ہمارے ایک مرحوم دوست بلا کے سینہ زور تھے۔ ایک ایسی ہی غزل میں شعر تھا: تجھے وہم ہواہے مجھے کیوں اٹھا رہا ہے میری جائے سجدہ ہے یہ تیرا نقش پالین ہے اس شعر پر بہت داد ملی۔ بعد میں ستم بالائے ستم یوں ہوتا کہ وہ اکثر ہم سے بھی اس شعر پر اپنا حق سمجھ کر داد وصول کرتے رہے۔ یادوں کی بھول بھلیوں میں بات ذرا بڑھ گئی ہے۔ ذکر قالین مانگنے کا تھا۔ ان دنوں اس گھر کے آگے کشادہ دالان تھا۔ سڑک سے گھر واضح نظر آتا تھا۔ اب تو دور ایک کونے میںسہما ہوا اور دبکا ہواہے۔ ہمیں فوراً شرف باریابی حاصل ہو گیا۔ اس درسگاہ میں کسی صاحب و دربان کی ضرورت نہ تھی۔ طلباء کے لیے رسائی بہت پھیلی تھی۔ مرحوم لنگی اور بنیان پہنے حقہ پی رہے تھے۔ قالین لپٹے ہوئے دیواروں کے ساتھ پڑے ہوئے تھے۔ ہم نے للچائی ہوئی نظروں سے انھیں دیکھا اور دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ چلو قالین بغیر کسی اکھاڑ پچھاڑ کے مل جائیں گے۔ کافی دیر تک تو ہم اس دبدبۂ قلندری سے مبہوت رہے۔ زبانیں گنگ تھیں حرف مدعا کیسے کہتے، علامہؒ نے ایک دو دفعہ حقے کی گڑ گڑ کے ساتھ لانبی ہوں کی اور ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ مرحوم طلباء سے بے انتہا شفقت اور مروت سے پیش آتے تھے۔ غالباً اسی بنا پر تاثیر صاحب نے حالانکہ وہ خود بے باک زبان و بیان کے مالک تھے، ہمیں قالین مانگنے کے لیے بھیجا تھا۔ اب پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ان کی عظمت کے جلال و جمال سے آگاہ تھے ان کی محفل میں کیوں نفس گم کردہ ہو کر رہ جاتے تھے۔ ہماری محبت اور عقیدت اس وقت تک ان کی لازوال اور بے کراں عظمت کو محیط نہ تھی، اس لیے ہم ایک گونہ گستاخی کے مرتکب ہو سکتے تھے۔ میں تو دیوار کی تصویر بنا بیٹھا رہا۔ نظامی مرحوم نے رُک رُک کر عرض مدعا کر ہی دی اور استدعا کو موثر بنانے کے لیے یہ اضافہ بھی کر دیا کہ شیخ عبدالقادر مرحوم میر مشاعرہ ہوں گے۔ ایک طویل ہوں کے ساتھ ہماری سفارت کی ناکامی کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ ہم دونوں کو اس انکار سے ایک انجانی سی تسکین ہوئی۔ کیا یہ خنک بختی کم تھی کہ یوں شرف ملاقات تو نصیب ہوا۔ دامن جھاڑ کے خوش و خرم واپس آ گئے۔ تاثیر صاحب کو اس انکار پر نہ کوئی اچھنبا ہوا اور نہ دُکھ۔ شیخ عبدالقادر مرحوم ادبی اور ثقافتی محفلوں کی صدارت بڑی خندہ پیشانی سے قبول کر لیا کرتے تھے۔ نظامی مرحوم تھوڑے سے شرارتی بھی تھے۔ جب صدارت زیر غور آئی تو شک گزرا کہ شیخ صاحب مصروفیت کی وجہ سے کہیں انکار نہ کر دیں۔ نظامی نے کہا یہ ناممکن ہے۔ وہ تو ہاروں کی توقع میں دعوت پر ہی گردن آگے کر دیتے ہیں۔ مشاعرہ ہوا۔ صدر اور شعرائے کرام قالینوں پر تکیوں کے سہارے براجمان تھے۔ طارق مرحوم شمع بردار تھے۔ گلوریاں پیش ہوئیں۔ شعراء نے شمع کی مدہم روشنی میں ۔ پیک دانوں کو اکثر استعمال کرنے کے بعد مطلع سے مقطع کہا تھا۔ سبحان اللہ! مکرر ارشاد پر بار بار داد وصول کی۔ نمایاں داد شیخ صاحب مرحوم کی تھی جو اظہار تحسین کے لیے ہاتھ بھی بلند کرتے تھے اور شعر دہراتے تھے۔ ابتداء میں نے ترنم سے اسی مستعار غزل سے کی اور خوب داد وصول کی۔ یہ تھی اس دور کے لاہور کی ایک جھلک جو اب زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں کھو گیا ہے۔
Bookmarks