چاند کے ساتھ کئی درد پرانےنکلےکتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلےفصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفااپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلےہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہےدل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلےعُمر گزری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتےکس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلےکوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوسخواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلےدل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محلتوُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلےدشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوںہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلےمیں نے امجد اسے بے واسطہ دیکھا ہی نہیںوہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے