تیری زد سے نکلنا چاہتا ہےیہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہےوہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہےمیری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہےدِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجبکہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہےنشستِ درد بدلی ہے تو اب دلذرا پہلو بدلنا چاہتا ہےہوا ہے بند اور شعلہ وفا کابہت ہی تیز جلنا چاہتا ہےیہ دل اس گرد بادِ زندگی میںبس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہےمجہے بھی سامنا ہے کربلا کامیرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہےنہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسویہ پانی اب ابلنا چاہتا ہےگزشتہ صحبتوں کا ایک لشکرمرے ہمراہ چلنا چاہتا ہےاُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجدکوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے
Bookmarks