دل کا نصیب کربِ شبِ انتظار ہےآنکھیں ہیں اور خواہشِ دیدارِ یار ہےدشتِ جنوں پہ تابشِ خورشید کا نزولصحنِ چمن پہ سایۂ ابرِ بہار ہےرختِ سفر میں ابرِ کرم بھی تو چاہیےدشواریوں کا راہ میں اک ریگزار ہےجی چاہتا تو ہے کہ اڑاؤں پتنگ میںلیکن ہوا زمانے کی ناسازگار ہےمیں نے تو کوئی بات چھپائی نہیں کبھیتو مان یا نہ مان، تجھے اختیار ہےدنیا کی بات سے مجھے کوئی غرض نہیںتو جانتا ہے، تجھ پہ مجھے اعتبار ہےہوں اس نگاہِ لطف و عنایت میں انتخابحاصل فصیح مجھ کو یہی افتخار ہے
Bookmarks