میں نے زندگی سے سمجھا ہے کہ غلطی ہونا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی عمر میں ہوجاتی ہے ۔ہر غلطی چاہے وہ بار بار ہو، اس پر ندامت اور اظہار افسوس کے ساتھ رب سے معافی ہی اس کاحل ہے۔ احساس گناہ پال کربروقت پریشان رہنا کڑہتے رہنا، ڈرتے رہنا آپ کو ایک خوفزدہ انسان بنادیتا ہے۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ غلطی مانیے اور اپنے رب سے توبہ کرلیجیے، اس کے ساتھ ساتھ اگر شرارت سے یاسوچ سمجھ کر کسی کے ساتھ زیادتی کردی ہے۔ اس کاحق مار لیا ہے۔ اسے تنگ کرلیا ہے تو بہادری دکھائیں اور جب خیال آجائے اس سے سچے دل سے معافی مانگ لیں۔ آپ کااحساس گناہ اور خوف دونوں ختم ہوجائیں گے۔ اس انسان سے معافی اور رب سے معافی کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جو آپ کو اس مشکل سے نکالے۔ کوئی اچھا لگے تو فیصلہ کس بنیاد پر کرتے ہیں:میں نے سکول کی زندگی میں ہی یہ بات سیکھ لی تھی آپ کو بطور خود شناس استاد بچوں کو بتانا چاہیے کہ کوئی کتنا بھی اچھا کیوں نہ لگے جو آپ سے عمر میں زیادہ بڑا ہے اور کلاس میں بھی بڑا ہے، اس سے دوستی اور قربت سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے۔ آپ کے اپنے ہی ہم عمر بدنام کرنے لگتے ہیں اور آپ بغیر کسی غلطی اور جرم کے گناہ گار ٹھہر جاتے ہیں۔ دوسروں کے مذاق کانشانہ بنتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ الزام آپ پر مستقل لگ جاتا ہے اور آپ اس کا کچھ نہیں کرسکتے۔ جب ہم نور پور نورنگا سکول میں تھے تو چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ ہمارا گھر سکول کے اندر ہی تھا۔ کراچی روڈ پریہ سکول واقع ہے۔ مین گیٹ سے راستہ سکول کے اندر سے ہوکر نور پور گائوں جاتا تھااور اس راستے پر طلبہ بھی گزرتے تھے اور عام لوگ بھی۔ ہمارے سکول کے کچھ بچے سکول کے بعد ہمارے ساتھ فٹ بال کھیلتے ۔ گھر کے باہر رکھی کرسیوں پر بھی آکر بیٹھ جاتے ۔ محمداسلم اور شفیع کے نام ابھی مجھے یاد ہیں۔ ایک مجی یا مجیب بھی تھا۔ وہاں سے ایک خاموش طبع لڑکاگزرتا تھا۔ میںنے اپنے ہم جولیوں سے کہا اسے بھی بلالیا کرو۔ روز گزرتا ہے مجھے اچھا لگنے لگا ہے۔ اس پر انہوں نے سمجھایا کہ آپ ہیڈ ماسٹرصاحب کے بیٹے ہو۔ عام لڑکوں سے آپ کا واسطہ ہی کبھی نہیںپڑا۔ ہر لڑکے کے ساتھ اس کی اچھی بری شہرت ہوتی ہے۔ دوستی، تعلق یا واقفیت میں ہمارے بڑوں نے یہ اصول بتایا ہے کہ بری شہرت والا لڑکا سونے کا بھی ہوتو اس کے قریب مت جائو، اس کاکچھ نہیں بگڑے گا آپ بدنام ہوجائو گے۔ تب تو شکریہ ادا کرنے کا اتنا علم نہیں تھامگر آج میں ان کاغائبانہ شکریہ ادا کرتاہوں کہ ان کی بتائی یہ قیمتی بات زندگی بھر کام آئی۔ آٹھویں نویں میں چہرے پہ مونچھیں ڈاڑھی آنے لگتی ہے۔ میں بھی چھپ چھپ کر شیو کرنے لگا تاکہ جلدی بڑا ہوجائوں۔ انسان کسی حالت میں خوش نہیں رہتا،ساتویں میں ہوتو آٹھویں کے خواب آتے ہیں، نویں میں ہو تو دسویں کے اور میٹرک پاس کرکے کالج جانے کے۔ کالج جاکر میں نے محسوس کیا کہ میں سب سے چھوٹی کلاس اور چھوٹی سی عمر کاہوں۔ اس زمانے میں جمعیت کے چند اچھے اور نیک لڑکوں سے دوستی ہوگئی، مگر ان کاساتھ، ہر وقت کاساتھ تو نہ تھا، پھر بھی میں نے احتیاطاََ اپنی حفاظت کے لیے ڈاڑھی رکھ لی تاکہ بڑا بڑا لگوں، بعدمیںجاکر سنت کی پیروی اور آنحضورؐ کی خوشی بھی نیت میں شامل ہوگئی۔،مگر سچی بات یہ ہے کہ خود آگاہی آپ کے بہت کام آتی ہے۔ خوف سے بچاتی ہے، پریشانی اور خواری سے بچاتی ہے اور کامیابی اور اطمینان کے راستے آسان کرتی ہے۔ (چیف انسپائرنگ آ فیسر ہائی پوٹینشل آئیڈیازاختر عباس کی تصنیف خودشناس و خودآگاہ،قابل ِرشک ٹیچر:جس کا سب احترام کریں سے مقتبس) ٭٭٭
Bookmarks