جون ایلیا
’’تم باہر تو جارہے ہو مگر تمہیں کسی نے اغوا کر لیا تو…‘‘ ’’ہوں…میں باہر تو جارہا ہوں مگر مجھے کسی نے اغوا کر لیا تو… مجھے کسی نے اغوا کر لیا تو…‘‘ ’’مگر تم مجھے خواہ مخواہ بلاتے رہتے ہو۔‘‘ ’’میں خواہ مخواہ بلاتا رہتا ہوں… تمہیں مقدس صحیفوں کی قسم، کیا یہ بات دل سے کہہ رہے ہو؟‘‘ ’’تو پھر تم بھی میرے ساتھ چلو۔‘‘ ’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں…مگر ہم دونوں کو اغوا کر لیا گیا تو…؟‘‘ ’’ہاں یہ تو ہے۔ اگر ہم دونوں کو اغوا کرلیا گیا تو… تو پھر؟‘‘ ’’تو پھر یہ کہ باہر تو جانا ہوگا ، ہم اندر کب تک رہ سکتے ہیں؟ باہر ہی تو ساری زندگی ہے۔ باہر ہی تو سب کچھ ہے۔ ہمارے نام بھی تو ہمارے باہر ہی ہیں۔ ہماری پہچان بھی تو باہر ہی ہے اور یہ کہ تم بھی تو میرے باہر ہی ہو… اور میں بھی تو تمہارے باہر ہی ہوں… اور میرے اور تمہارے سانس بھی تو باہر ہی ہیں۔‘‘ ’’میرے بھائی! آخر ان بستیوں کو ہوکیا گیا ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو نہ جانے کہاں سے یہاں آگئے ہیں؟ بہت سے لوگوں نے اس بستی میں ہوش سنبھالا ہے، کوئی بتائے کہ یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں…؟‘‘ ’’یہ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں؟ کہیں یہ لوگ ہمارے اور تمہارے اندر سے تو نہیں نکل آئے؟‘‘ ’’ہاں، ایسا ہو تو سکتا ہے کہ یہ لوگ ہم ہی میں سے برآمد ہوئے ہوں… اور ایک دوسرے کو خود ہی اغوا کر لیتے ہیں۔ مگر پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ہوتا تھا مگر کبھی کبھی ہوتا تھا مگر اب تو روز کا معمول بن گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ یہ گلیاں، یہ نکڑ، یہ راستے ، یہ شاہرائیں اور یہ بستیاں اتنی مہلک اور مہیب کیوں ہوگئی ہیں؟ ہم نے تو ان بستیوں کو بڑے چائو سے بسایا تھا ، ہم نے تو اپنے مسکنوں کو اجاڑ کر ان بستیوں کو اپنا مسکن بنایا تھا… توپھر یہ بستیاں ہمارے حق میں ، ہم میں سے ایک دوسرے کے حق میں اتنی نامہربان کیوں ہوگئی ہیں؟ میرا نام زید ہے، میں اردو بولتا ہوں اور میں اس بستی میں غیر محفوظ ہوں۔ میرے ایک دوست کا نام مہتاب منگریوہے، وہ سندھی بولتا ہے اور وہ بھی اس بستی میں غیر محفوظ ہے۔ میرے ایک اور دوست کا نام عثمان بلوچ ہے ، وہ بلوچی زبان بولتا ہے۔ اردو بھی جانتا ہے، وہ بھی اس بستی میں غیر محفوظ ہے۔ میرا اپنا ایک آدمی ہے، اس کا نام نذیر لغاری ہے، وہ بابا فریدؒ کے شہر کا رہنے والا ہے اور وہ بھی اس بستی میں غیر محفوظ ہے۔ اور میرا ایک یارہے افتخار جالب، جو پنجابی اور اردو میں لکھتا ہے۔ اسی بستی میں رہتا ہے اور وہ بھی اس بستی میں غیر محفوظ ہے۔‘‘ ’’مگر پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پہلے اگر ایسا ہوتا بھی تھا تو بہت کم ہوتا تھا۔‘‘ ’’سننا چاہتے ہو…؟ یہ قانون کی شکست ہے۔ یہ قانون کی بے حرمتی ہے اور یہ قانون کی معزولی ہے۔‘‘ ’’ہیں… قانون کو کس نے معزول کیا؟ قانون کی کس نے بے حرمتی کی؟‘‘ ’’قانون کو کس نے معزول کیا، قانون کی کس نے بے حرمتی کی… میرے بھائی! کیا یہ بات بھی نہیں جانتے؟ یہ بات تو کریم سبزی فروش بھی جانتا ہے اور یہ بات تو خلیفہ مجید کے اکھاڑے کے پٹھے بھی جانتے ہیں…اور یہ بات تو تنو جیب تراش بھی جانتا ہے۔ کیا میں اس سے آگے بھی کچھ کہوں؟ یہ بات تو وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو حکومت کی گدی پر بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قانون بنایا اور اب جو فرق پڑا ہے، وہ یہ ہے کہ عام آدمیوں نے بھی قانون سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ جب تک قانون بنانے والے قانون کا احترام نہیں کریں گے تو بستیوں اور شہروں کے عام لوگ بھی ا س کا احترام نہیں کریں گے۔ حکمرانوں سے کہو کہ وہ عام آدمیوں سے یہ سمجھوتہ کریں کہ جو قانون ہم نے بنایا ہے، ہم بھی اس کا احترام کریں گے اور تم بھی اس کا احترام کرو گے اور نہیں…اور اگر نہیں تو نہیں، ہرگز نہیں۔ اگر عام آدمی کو قانون کا پابند بنایا گیا تو پھر خاص آدمیوں کو بھی اس قانون کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر قانون کی دوطرفہ رعایت نہیں کی گئی اور اس کی حرمت کو برقرار نہیں رکھا گیا تو پھر ان بستیوں میں جنگل کے درندے ہی آکر آباد ہوں گے۔‘‘ (انشائیوں کے مجموعے ’’فرنود‘‘ سے انتخاب)



Similar Threads: