اک ادھورا سا خواب ہو جیسے
زندگانی کتاب ہو جیسے
میری آنکھوں کے ریگزاروں میں
اک مسلسل سراب ہو جیسے
منتشر منتشر رہی ایسی
بکھرا بکھرا گلاب ہو جیسے
جاگتی آنکھ سے جو دیکھا تھا
تم مرا وہ ہی خواب ہو جیسے
اس کی قامت پہ یہ گمان ہوا
بچپنے میں شباب ہو جیسے
جو دعا نیم شب میں مانگی تھی
اُس دعا کا جواب ہو جیسے
ہاں لکھا تھا کتابِ دل پر جو
تم ہی وہ انتساب ہو جیسے
جس کو پی کر میں اپنے بس میں نہیں
تم وہ ظالم شراب ہو جیسے
Similar Threads:
Bookmarks