google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 7 of 7

    Thread: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

    Hybrid View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
      اوریا مقبول جان




      کیا اس طرح بے بسی کی موت مرنے والے بچے کی یہ پہلی تصویر ہے جو پوری انسانیت کے منہ پر طمانچے کی طرح ثبت ہوئی ہے۔ نہیں اس جدید تہذیب کے منہ پر ہزاروں بلکہ لاکھوں طمانچے ایسے ہیں جو اپنی انگلیوں کے نشان تک چھوڑ کر گئے ہیں۔ جدید تہذیب جس کی سب سے بڑی پہچان جدید سیکولر قومی ریاستیں اور ان کی سرحدیں ہیں۔ وہ سرحدیں جن میں کسی دوسرے انسان کا گھسنا حرام ہے۔ سرحد کے بان کے پہریدار بندوقوں سے مسلح وہاں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کو کسی دوسرے ملک میں یا تو پناہ کی بھیک مل سکتی ہے یا پھر اگر انھیں آپ کے کام کی ضرورت ہو تو مزدوری۔ آپ کے پاس سرمایہ ہے تو آپ کا استقبال بھی کیا جاتا اور آپ کو عزت و توقیر بھی ملتی ہے۔ آپ کے لیے یہ تمام سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک آپ اپنا کاروبار چمکا سکتے ہیں۔
      اس کے علاوہ آپ سمندروں میں غرق ہو جائیں صحراؤں میں جان دے دیں رستے میں ڈاکو آپ کو لوٹ لیں آپ کی عورتیں اغوا کر کے دنیا کے بازاروں میں بیچی جائیں بچے پیاس سے تڑپ کر جان دے دیں۔ کوئی آپ کے لیے اپنی سرحدوں کے دروازے نہیں کھولے گا۔ یہ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا خوبصورت چہرہ ہے جو 1920ء میں لیگ آف نیشنز میں پاسپورٹ کے ڈیزائن منظور ہونے کے بعد تحریر کیا گیا۔ جس کے بعد میں 1924ء میں ویزا ریگولیشنز آئے بارڈر سیکیورٹی فورسز قائم ہوئیں اور پوری دنیا کو ایک بہت بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ خار دار تاروں کے پنجروں کے پیچھے کوئی ترک تھا تو کوئی عرب کوئی ہسپانوی تھا تو کوئی ایرانی۔ بانکے پہریدار کسی کو اپنے پنجرے میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتے خواہ ایک جانب غلے کے گوداموں میں غلہ کائی لگنے سے ضایع ہو جائے اور دوسری جانب روزانہ قحط سے لوگ مر رہے ہوں۔ جدید قومی سیکولر ریاستوں کی سرحدوں کا تحفظ مفلوک الحال انسانوں کی جانوں سے زیادہ مقدس اور محترم ہے۔
      یہ ساحل تھا اور یہی ترکی کا شہر قسطنطنیہ جب یہ مسلم امہ سرحدوں اور جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ کوئی عربی، ایرانی، مصری، شامی اور لبنانی نہیں تھا۔ خلافت عثمانیہ کے تخت پر بایزید دوم متمکن تھا۔ اس دوران 1492ء میں اسپین پر ازبیلا اور فرڈینینڈ نے قبضہ کر لیا اور کیتھولک چرچ نے ایک ٹرائبیونل قائم کیا جس کا مقصد غیر عیسائیوں ملحدوں اور چرچ کے مخالفین سے زمین کو پاک کرنا تھا۔ اس کا نام تھا Tribunal del officio de la inguicion اس کا مقصد غیر عیسائیوں کو زبردستی عیسائی کرنا ان کو ملک بدر کرنا قتل کرنا غلط نظریات رکھنے والوں کو آگ میں جلانا اور عمر بھر جیل میں قید رکھنا تھا۔ 31 مارچ 1492ء کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جسے حکم نامہ الحمراء کہا جاتا ہے جس کے تحت حکم دیا گیا کہ تمام یہودی 31 جولائی تک اسپین چھوڑ دیں۔
      یہودیوں پر اسپین میں نہ رہنے کی پابندی 16 ستمبر 1968ء تک قائم رہی جب دوسری ویٹیکن کونسل نے 1492ء کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا اور 2014ء یعنی گزشتہ سال اسپین کی حکومت نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ وہ یہودی جو یہاں سے چلے گئے تھے، ان کی نسل میں کوئی شخص اگر ثابت کرے تو وہ دہری شہریت کے طور پر اسپین کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ شاعروں، مصوروں، سائنس دانوں اور فلسفیوں کو جمع کیا جاتا ٹرائبیونل فیصلہ کرتا کہ ان میں شیاطین کی روح گھس گئی ہے۔ پھر ایک دن شہر کے بیچوں بیچ بہت بڑا الاؤ روشن کیا جاتا اور ان سب کو اس میں پھینک دیا جاتا۔ یہودیوں کو جب یہ حکم ملا کہ وہ ناپاک ہیں اور اسپین چھوڑ دیں تو ان میں نصف کے قریب عیسائی ہو گئے۔ چرچ کے پروہتوں نے یہ حکم جاری کیا کہ وہ روزانہ ان کے سامنے سور کا گوشت کھائیں گے اور ہفتہ یعنی یہودیوں کی چھٹی کے دن اپنی دکانیں کھولیں گے۔ ایک مہینے کی مہلت تھی۔ لاکھوں یہودی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار اسی سمندر میں پناہ اور امان کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔
      کچھ کو قریب کے افریقی ساحلوں پر رہنا نصیب ہو گیا لیکن تاریخ کا روشن باب یہ ہے کہ سلطان بایزید دوم کو جب ان کی حالت زار کا علم ہوا تو اس سمندر میں بکھرے یہودیوں کو بچانے کے لیے اپنا سب سے بڑا بحری جہاز کمال رئیسں روانہ کیا جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے سے بچا کر لایا۔ یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے کسی بھی شہر میں آباد ہونے، کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت تک جدید قومی سیکولر ریاستوں کے قیام کے بعد پناہ گزین مہاجرین یا عارضی شہری کا تصور نہیں تھا جو آج کی مہذب دنیا کا تحفہ ہے۔ کسی سے شہریت دینے کے لیے پانچ دس یا پندرہ سال تک مملکت سے وفاداری کا تجربہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ پہلے کام کا ویزہ، پھر عارضی رہائش اور پھر شہریت کے جدید مہذب قوانین نہیں تھے۔ انسان دنیا بھر کے انسانوں کو اپنی طرح ہی کے انسان تصور کرتے تھے۔ یہ یہودی ترکی میں آباد ہو گئے۔ 1923ء میں جب خلافت عثمانیہ ٹوٹی اور ترکی بھی ایک جدید سیکولر قومی ریاست بن گیا تو یہودیوں نے یروشلم کی جانب آہستہ آہستہ جا کر آباد ہونا شروع کیا۔ 1949ء میں کمال اتاترک کے سیکولر ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو یہودیوں کی اکثریت وہاں جا کر آباد ہوئی۔ اسے دنیا میں اسرائیل کی طرف جانے والی دوسری بڑی ہجرت کہا جاتا ہے۔
      یہودی اسرائیل میں آباد ہو گئے بلکہ آباد کر دیے گئے۔ وہ لوگ جو اس وقت عالمی ضمیر کے جاگنے اور برطانوی وزیر اعظم کے ضمیر کے زندہ ہونے پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں انھیں 1982ء کا صابرہ و شتیلہ کا وہ قتل عام اور اس کی تصویریں یاد نہیں آ رہی ہیں۔ انھیں گلیوں میں کھیلتے ان سیکڑوں معصوم بچوں کے گولیوں سے چھدے جسموں کی تصویریں بھول گئی ہیں۔ انھیں غزہ کے معصوم بچے یاد نہیں آئے جو اسرائیل کی بمباری سے اسپتالوں میں مارے گئے گھروں میں ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ انھیں عراق کے فلوجہ میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے بچوں کی تصویریں بھول گئیں۔ افغانستان میں غزنی کے قریب امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے پوری کی پوری بارات کی لاشیں کیا ذہن سے محو ہو گئیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کی لاشیں تو آج بھی کبھی ملائیشیا اور کبھی تھائی لینڈ کے ساحلوں پر دفنائی جاتی ہیں۔
      یہ عالمی ضمیر کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ انسانی حقوق کس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ایلان کُردی وہ تین سالہ بچہ جسے کوبانی کے شہر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس کے آباؤ اجداد کو تقسیم کس نے کیا اور کیوں کیا۔ وہ جو صلاح الدین ایوبی کے وارث تھے آج یورپ میں پناہ حاصل کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ انھیں جدید قومی ریاستوں کی تخلیق کے وقت شام، عراق، ترکی، اردن اور ایران میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان کے گرد عالمی سرحدیں کھینچ دی گئیں۔ ان کے ہاتھ میں بندوق دے کر کہا گیا لڑو ترکی سے لڑو ایران سے لڑو شام سے لڑو عراق سے لڑو پھر انھیں در بدر کیا گیا۔ وہ کبھی روس کے ہاتھ میں کھیلے اور کبھی امریکا کا کھلونا بنے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم جس سے شکست آج بھی مغرب نہیں بھولا۔ کس قدر انا کو تسکین ملی ہو گی۔ برطانوی وزیراعظم اور یورپ کے دیگر حکمرانوں کو جب انھوں نے اعلان کیا ہو گا کہ ہم ان کرد مہاجرین کے لیے سرحدوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے مسلم امہ کہاں ہے۔ مسلم امہ کہاں ہے۔ ستاون اسلامی جدید قومی ریاستوں پر سیکولر حکمران مسلط ہیں۔ وہ اتنے ہی قوم پرست ہیں جتنا کوئی فرانسیسی یا برطانوی ہو سکتا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
      @Arosa Hya




      Similar Threads:

      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (03-01-2016)

    3. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      Nice Sharing
      Thanks For Sharing


    4. #3
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      511

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
      اوریا مقبول جان




      کیا اس طرح بے بسی کی موت مرنے والے بچے کی یہ پہلی تصویر ہے جو پوری انسانیت کے منہ پر طمانچے کی طرح ثبت ہوئی ہے۔ نہیں اس جدید تہذیب کے منہ پر ہزاروں بلکہ لاکھوں طمانچے ایسے ہیں جو اپنی انگلیوں کے نشان تک چھوڑ کر گئے ہیں۔ جدید تہذیب جس کی سب سے بڑی پہچان جدید سیکولر قومی ریاستیں اور ان کی سرحدیں ہیں۔ وہ سرحدیں جن میں کسی دوسرے انسان کا گھسنا حرام ہے۔ سرحد کے بان کے پہریدار بندوقوں سے مسلح وہاں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کو کسی دوسرے ملک میں یا تو پناہ کی بھیک مل سکتی ہے یا پھر اگر انھیں آپ کے کام کی ضرورت ہو تو مزدوری۔ آپ کے پاس سرمایہ ہے تو آپ کا استقبال بھی کیا جاتا اور آپ کو عزت و توقیر بھی ملتی ہے۔ آپ کے لیے یہ تمام سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک آپ اپنا کاروبار چمکا سکتے ہیں۔
      اس کے علاوہ آپ سمندروں میں غرق ہو جائیں‘ صحراؤں میں جان دے دیں‘ رستے میں ڈاکو آپ کو لوٹ لیں‘ آپ کی عورتیں اغوا کر کے دنیا کے بازاروں میں بیچی جائیں‘ بچے پیاس سے تڑپ کر جان دے دیں۔ کوئی آپ کے لیے اپنی سرحدوں کے دروازے نہیں کھولے گا۔ یہ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا ’’خوبصورت‘‘ چہرہ ہے جو 1920ء میں لیگ آف نیشنز میں پاسپورٹ کے ڈیزائن منظور ہونے کے بعد تحریر کیا گیا۔ جس کے بعد میں 1924ء میں ویزا ریگولیشنز آئے‘ بارڈر سیکیورٹی فورسز قائم ہوئیں اور پوری دنیا کو ایک بہت بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ خار دار تاروں کے پنجروں کے پیچھے کوئی ترک تھا تو کوئی عرب‘ کوئی ہسپانوی تھا تو کوئی ایرانی۔ بانکے پہریدار کسی کو اپنے پنجرے میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتے‘ خواہ ایک جانب غلے کے گوداموں میں غلہ کائی لگنے سے ضایع ہو جائے اور دوسری جانب روزانہ قحط سے لوگ مر رہے ہوں۔ جدید قومی سیکولر ریاستوں کی سرحدوں کا تحفظ مفلوک الحال انسانوں کی جانوں سے زیادہ مقدس اور محترم ہے۔
      یہ ساحل تھا اور یہی ترکی کا شہر قسطنطنیہ جب یہ مسلم امہ سرحدوں اور جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ کوئی عربی، ایرانی، مصری، شامی اور لبنانی نہیں تھا۔ خلافت عثمانیہ کے تخت پر بایزید دوم متمکن تھا۔ اس دوران 1492ء میں اسپین پر ازبیلا اور فرڈینینڈ نے قبضہ کر لیا اور کیتھولک چرچ نے ایک ٹرائبیونل قائم کیا جس کا مقصد غیر عیسائیوں‘ ملحدوں اور چرچ کے مخالفین سے زمین کو پاک کرنا تھا۔ اس کا نام تھا “Tribunal del officio de la inguicion” اس کا مقصد غیر عیسائیوں کو زبردستی عیسائی کرنا‘ ان کو ملک بدر کرنا‘ قتل کرنا‘ غلط نظریات رکھنے والوں کو آگ میں جلانا اور عمر بھر جیل میں قید رکھنا تھا۔ 31 مارچ 1492ء کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا‘ جسے حکم نامہ الحمراء کہا جاتا ہے جس کے تحت حکم دیا گیا کہ تمام یہودی 31 جولائی تک اسپین چھوڑ دیں۔
      یہودیوں پر اسپین میں نہ رہنے کی پابندی 16 ستمبر 1968ء تک قائم رہی جب دوسری ویٹیکن کونسل نے 1492ء کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا اور 2014ء یعنی گزشتہ سال اسپین کی حکومت نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ وہ یہودی جو یہاں سے چلے گئے تھے، ان کی نسل میں کوئی شخص اگر ثابت کرے تو وہ دہری شہریت کے طور پر اسپین کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ شاعروں، مصوروں، سائنس دانوں اور فلسفیوں کو جمع کیا جاتا‘ ٹرائبیونل فیصلہ کرتا کہ ان میں شیاطین کی روح گھس گئی ہے۔ پھر ایک دن شہر کے بیچوں بیچ بہت بڑا الاؤ روشن کیا جاتا اور ان سب کو اس میں پھینک دیا جاتا۔ یہودیوں کو جب یہ حکم ملا کہ وہ ناپاک ہیں اور اسپین چھوڑ دیں تو ان میں نصف کے قریب عیسائی ہو گئے۔ چرچ کے پروہتوں نے یہ حکم جاری کیا کہ وہ روزانہ ان کے سامنے سور کا گوشت کھائیں گے اور ہفتہ یعنی یہودیوں کی چھٹی کے دن اپنی دکانیں کھولیں گے۔ ایک مہینے کی مہلت تھی۔ لاکھوں یہودی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار اسی سمندر میں پناہ اور امان کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔
      کچھ کو قریب کے افریقی ساحلوں پر رہنا نصیب ہو گیا لیکن تاریخ کا روشن باب یہ ہے کہ سلطان بایزید دوم کو جب ان کی حالت زار کا علم ہوا تو اس سمندر میں بکھرے یہودیوں کو بچانے کے لیے اپنا سب سے بڑا بحری جہاز ’’کمال رئیسں‘‘ روانہ کیا جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے سے بچا کر لایا۔ یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے کسی بھی شہر میں آباد ہونے، کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت تک جدید قومی سیکولر ریاستوں کے قیام کے بعد پناہ گزین‘ مہاجرین‘ یا عارضی شہری کا تصور نہیں تھا جو آج کی مہذب دنیا کا تحفہ ہے۔ کسی سے شہریت دینے کے لیے پانچ‘ دس یا پندرہ سال تک مملکت سے وفاداری کا تجربہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ پہلے کام کا ویزہ، پھر عارضی رہائش اور پھر شہریت کے جدید مہذب قوانین نہیں تھے۔ انسان دنیا بھر کے انسانوں کو اپنی طرح ہی کے انسان تصور کرتے تھے۔ یہ یہودی ترکی میں آباد ہو گئے۔ 1923ء میں جب خلافت عثمانیہ ٹوٹی اور ترکی بھی ایک جدید سیکولر قومی ریاست بن گیا تو یہودیوں نے یروشلم کی جانب آہستہ آہستہ جا کر آباد ہونا شروع کیا۔ 1949ء میں کمال اتاترک کے سیکولر ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو یہودیوں کی اکثریت وہاں جا کر آباد ہوئی۔ اسے دنیا میں اسرائیل کی طرف جانے والی دوسری بڑی ہجرت کہا جاتا ہے۔
      یہودی اسرائیل میں آباد ہو گئے بلکہ آباد کر دیے گئے۔ وہ لوگ جو اس وقت عالمی ضمیر کے جاگنے اور برطانوی وزیر اعظم کے ضمیر کے زندہ ہونے پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں انھیں 1982ء کا صابرہ و شتیلہ کا وہ قتل عام اور اس کی تصویریں یاد نہیں آ رہی ہیں۔ انھیں گلیوں میں کھیلتے ان سیکڑوں معصوم بچوں کے گولیوں سے چھدے جسموں کی تصویریں بھول گئی ہیں۔ انھیں غزہ کے معصوم بچے یاد نہیں آئے جو اسرائیل کی بمباری سے اسپتالوں میں مارے گئے‘ گھروں میں ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ انھیں عراق کے فلوجہ میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے بچوں کی تصویریں بھول گئیں۔ افغانستان میں غزنی کے قریب امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے پوری کی پوری بارات کی لاشیں کیا ذہن سے محو ہو گئیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کی لاشیں تو آج بھی کبھی ملائیشیا اور کبھی تھائی لینڈ کے ساحلوں پر دفنائی جاتی ہیں۔
      یہ عالمی ضمیر کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ انسانی حقوق کس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ایلان کُردی وہ تین سالہ بچہ جسے کوبانی کے شہر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس کے آباؤ اجداد کو تقسیم کس نے کیا اور کیوں کیا۔ وہ جو صلاح الدین ایوبی کے وارث تھے آج یورپ میں پناہ حاصل کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ انھیں جدید قومی ریاستوں کی تخلیق کے وقت شام، عراق، ترکی، اردن اور ایران میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان کے گرد عالمی سرحدیں کھینچ دی گئیں۔ ان کے ہاتھ میں بندوق دے کر کہا گیا لڑو‘ ترکی سے لڑو‘ ایران سے لڑو‘ شام سے لڑو‘ عراق سے لڑو‘ پھر انھیں در بدر کیا گیا۔ وہ کبھی روس کے ہاتھ میں کھیلے اور کبھی امریکا کا کھلونا بنے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم جس سے شکست آج بھی مغرب نہیں بھولا۔ کس قدر انا کو تسکین ملی ہو گی۔ برطانوی وزیراعظم اور یورپ کے دیگر حکمرانوں کو جب انھوں نے اعلان کیا ہو گا کہ ہم ان کرد مہاجرین کے لیے سرحدوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے مسلم امہ کہاں ہے۔ مسلم امہ کہاں ہے۔ ستاون اسلامی جدید قومی ریاستوں پر سیکولر حکمران مسلط ہیں۔ وہ اتنے ہی قوم پرست ہیں جتنا کوئی فرانسیسی یا برطانوی ہو سکتا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
      @Arosa Hya


      Nice Sharing ka shukariya


    5. The Following 2 Users Say Thank You to Dr Danish For This Useful Post:

      intelligent086 (03-01-2016),Moona (03-01-2016)

    6. #4
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      Quote Originally Posted by UmerAmer View Post
      Nice Sharing
      Thanks For Sharing
      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Nice Sharing ka shukariya
      خوب صورت آراء اور پسند کا بہت بہت شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    7. #5
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      16

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing

      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    8. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (03-01-2016)

    9. #6
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      Quote Originally Posted by Moona View Post
      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    10. #7
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      16

      Re: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •