یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں
عبدالقادر حسن

ذاتی زندگی میں امیری اور غریبی دونوں کیفیتیں میرے لیے برابر ہیں۔ اسی شہر میں سو سوا سو روپے ماہوار تنخواہ میں عیش کرتا رہا اور اب یہ نہیں بتاؤں گا کہ اسی شہر میں کس قدر رئیس سمجھا جاتا ہوں اور ماہوار کتنی رقم میں عیش کرتا ہوں۔ دونوں صورتیں یک گو نہ عیاشی کی ہی تھیں۔ شاعر نے سچ ہی کہا ہے کہ دیا ہے غیر کو بھی تاکہ اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے
چنانچہ ایک زمانہ تھا کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک امریکی ڈالر کتنے روپے کا ہوتا ہے کبھی ڈالر حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئی اب ہمیں خوب معلوم ہے کہ ایک امریکی ڈالر ایک سو چار پانچ روپے کا ہے۔ اسی ملک میں ایک امریکی ڈالر صرف پانچ چھ روپے میں بھی بکا اور اب خدا نہ کرے کہ اسے خریدنا پڑ جائے تو کنگال ہی ہو جائیں۔
اس سے تو بہتر ہو گا جناب عالی مرتبت اسحاق ڈار صاحب کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا جائے یا ان کی موقع پا کر جیب کاٹ لی جائے جس کا انھیں پتہ بھی نہ چلے کیونکہ ان کے ہاں حساب کتاب اور گنتی نہیں ہوا کرتی بلکہ اب تو ان کی ذات گرامی ہی ڈالر بھی ہے اور پونڈ بھی ہے۔ نہیں ہے تو صرف روپیہ نہیں ہے۔
جس کی وقعت اتنی کم ہو گئی ہے کہ اسے پاس رکھنا ایسے اونچے لوگوں کی توہین ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری روٹی روزی اس کم ظرف روپے پر چلتی ہے اور ہمارے بازار میں یہی چلتا ہے اس لیے ہماری جیب کی عزت بھی اسی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی جناب ڈالر صاحب معاف کیجیے گا ڈار صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ ہم غریبوں مسکینوں کو بھی زندگی کا اذن دے دیں جسے ہم جوں توں کر کے گزار لیں۔ ڈالر کے بغیر صرف روپے کے سہارے۔
ہمارے روپے کی قیمت جس قدر گری ہے اور ڈالر کی جس قدر بڑھی ہے ہمارے ارب پتی لوگوں کی دولت میں بھی ڈالر کی قیمت کی طرح کمی یا اضافہ ہو گیا ہے اور اب وہ نہ جانے کتنے ڈالروں میں اونچے ہو چکے ہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہماری اسٹاک مارکیٹ بالکل ہی بیٹھ جانے والی تھی اب اس میں سے دو کھرب 69 ارب روپے کم ہو چکے ہیں۔
چنانچہ ہم سب دیکھیں کہ آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ ایک عام پاکستانی بھی اپنے ملک پر نظر ڈالتا ہے تو اسے حوصلہ ملتا ہے کیونکہ ہمارا ملک دولت پیدا کرنے کے وسائل سے بھرا ہوا ہے مگر جب وہ اپنی غربت کی باتیں سنتا ہے تو غضبناک ہو جاتا ہے اور ہماری معیشت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو لعنت ملامت کرنے لگتا ہے۔ وجہ ہم سب کو معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم اپنے ملک کی شاندار معاشیات کو سنبھال نہیں سکے۔
ہمارے غیر ضروری بلکہ فضول اخراجات اس قدر ہیں کہ ہم ان کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے حکمران جو ماشاء اللہ ارب پتی ہیں ارب پتیوں کی طرح اپنی نہیں ملک کی دولت پر زندگی بسر کرتے ہیں اپنی دولت کو ہوا تک لگنے نہیں دیتے۔ وہ تو خیرات بھی سرکاری سرمائے سے کرتے ہیں۔ جب گھر کے مالک کا رویہ ایسا ہو تو پھر ڈالر کسی بھی قیمت تک بڑھ سکتا ہے۔
معاشیات سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ہم اس وقت کتنے مقروض ہو چکے ہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ جب ہمیں قرض کی رقم مل جاتی ہے یا اس کا وعدہ کر لیا جاتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور اس قرض کو استعمال کرنے کے نئے منصوبے بنا لیتے ہیں۔ ان کی بھنک کسی حد تک عوام کو بھی ہو جاتی ہے جو صرف جل بھن کر رہ جاتے ہیں کچھ کر نہیں سکتے۔
پاکستان نام کے اس ملک نے بعض پاکستانیوں کو کیا کچھ نہیں دیا بلکہ اتنا دے دیا ہے کہ ان سے سنبھالا نہیں جا سکتا۔ ہمارے وزیر خزانہ بجائے اس کے اپنے قرضے مناسب منصوبوں پر لگانے کے طریقے تلاش کرتے وہ الٹے ان میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی ملک کو لاچار کرنے کے جو طریقے رائج ہیں ان میں ایک اس ملک کے قرضے بھی ہیں جو اس کی توفیق سے جب بڑھ جاتے ہیں تو وہ ملک زندگی کے لیے اپنے قرض خواہوں کا محتاج ہو جاتا ہے اس کی سانس تک قرض خواہوں کے پاس گروی رکھ دی جاتی ہے اور ایسے ملکوں کی زندگی آزادی سے محروم ہو جاتی ہے۔
ہم پاکستانی اپنے ان صاحب اختیار لوگوں سے عرض پرداز ہیں کہ وہ تھوڑا بہت ہی سہی ہمارا خیال بھی رکھیں۔ ان کے لیے تو دنیا کھلی ہے اور روپیہ نہ صرف یہ کہ ہر زبان بولتا ہے بلکہ ہر دروازہ بھی کھول دیتا ہے۔ مارے تو ہم غریب غربے جاتے ہیں جو یہ سب کچھ دیکھنے اور اسے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت جیسا چالاک بنیا ہماری کوتاہیوں کا تماشا دیکھ رہا ہے اور ان کی سزا کا منتظر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے حکمران بھی کاروباری لوگ ہیں سیاسی تو وہ کاروبار مزید چمکانے کے لیے بن گئے ہیں۔
لوگوں نے انھیں ووٹ بھی ان کی اسی کاروباری صلاحیت کے لیے دیے ہیں کہ ملک جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے وہ اسے اپنی ہمت اور ہنر سے نکال لیں گے۔ اب یہ حکمرانوں کا فرض ہے یا ان کا یہ موقع ہے کہ وہ ملک کو اس بحران سے نکال لیں۔ وہ اگر اپنے سابقہ ملازموں اور نئے رشتے داروں کی مانتے رہے تو مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ جناب ڈار صاحب اب ایک اکاؤنٹنٹ نہیں رہے وہ پاکستان کے اونچے ترین طبقے میں شامل ہو چکے ہیں اور ملک کی معاشی زندگی اب ان کے ہاتھ میں ہے وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ وہ اس ملک کے لیے کچھ ایسا کر جائیں کہ یہ قوم اپنے اس محسن کو یاد رکھے اور یہ کچھ بعید نہیں ہے۔
انھیں اگر ترقیاتی مشوروں کی ضرورت ہے تو ان کے مشیر بہت ہیں لیکن اچھے مشوروں پر عمل ان کو کرنا ہو گا۔ ڈار صاحب قوم کی آواز سنیں اور اسے مسترد نہ کریں۔ خدا نے انھیں ایک موقع دیا ہے کہ وہ عالم اسلام کے ایک بہت بڑے ملک کی خدمت کر سکیں۔ جس کے وسائل بھی بے شمار ہیں اور مسائل بھی اور وہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ اس ملک کو بچانا کچھ ایسا مشکل نہیں ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks