20صدی کا مسلمان اور قرۃالعین حیدر
زاہدہ حنا

اگست کو شام کے صوبے حمص سے جب یہ خبر آئی کہ جنگجوؤں نے سیکڑوں برس پرانی ایک عیسائی خانقاہ کو بارودسے اڑاکر تباہ بربادکردیا تو یہ وہی تاریخ تھی، جب آج سے 8برس پہلے قرۃ العین حیدر نے اس دنیا سے منہ موڑا تھا۔
کوئی عامی ہو یا نامی گرامی، موت اس کا مقدر ہے ، قرۃالعین دنیا سے رخصت ہوئیں اور اپنے پیچھے اعلیٰ تحریروں کا ایک ذخیرہ چھوڑ گئیں۔ ان کے پڑھنے والوں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ وہ آفتاب جس نے اردو ادب کے آسمان کو 60 برس تک روشن رکھا اس کی ضو بہت دنوں تک ہماری ادبی تاریخ کو جگمگاتی رہے گی ۔ 21 اگست کو بہ طور خاص ان کی بہت یاد آتی ہے لیکن شام کے شہر حمص سے آنے والی خبر پڑھ کر قرۃالعین حیدر کی یاد اس لیے کچھ زیادہ آئی کہ ان کے ایک طویل افسانے ’ سینٹ فلورا آف جار جیا کے اعترافات‘ میں ایک قدیم عیسائی خانقاہ کا ذکر ہے جس میں قرۃالعین کی ہیروئن جو صدیوں پہلے کی ایک عیسائی راہبہ ہے مسلمانوں کے بارے میں کہتی ہے :’’ عجیب بات یہ تھی کہ نئی حکومت نے ہمارے ساتھ اچھا برتاؤکیا ۔
سنا گیا وہ کہتے تھے کہ وہ اپنے پروفٹ کے اس چارٹر پر عمل کررہے ہیں جو انھوں نے خانقاہ سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو دیا تھا‘ اور وہی حسین دبا تمکین راہبہ جو ایک شہزادی تھی اور اپنے گھر والوں کے دباؤ پر دنیا ترک کرنے پرمجبور ہوئی تھی ، مسلمانوں کے بارے میں کہتی ہے ’’ غروب آفتاب کے بعد جب ہم میں سے کوئی راہبہ برجی کے چہل چراغ میں قندیل روشن کرنے کے لیے اوپر جاتی تو لبنان اور فلسطین اور مصرکی سمت جانے والے کارواں گھنٹیاں بجاتے اپنے اپنے حدی خوانوں کی قیادت میں پہاڑی راستے پر سے گزرتے نظر آتے تو کبھی کبھی ان میں سے کوئی آواز دیتا … نبی عیسیٰ روح اللہ کی امت والیو! تم پر سلامتی ہو۔ جو اباً ہم دیر تک قندیل اٹھائے برجی میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ ابن السبیل دھند لکے میں کھو جاتے ۔‘‘
وہ لوگ جنہوں نے ایک تاریخی اور قدیم عیسائی خانقاہ کو بارود سے اڑایا اور بل ڈوزروں سے گرایا ، انھیں بھی شاید اس چارٹر کے بارے میں علم تو ہوگا جو خانقاہ سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو دیا گیا تھا جس میں انھیں جان کی امان دی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ ان کی عبادت گاہوں سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا۔
یہ بات برسبیل تذکرہ بیان ہوئی ورنہ اصل معاملہ تو اردو کی بے مثال ادیبہ کو یاد کرنے کا ہے ۔ وہ 21 اگست 2007کو اس جہان سے گئیں۔ ان کی رخصت کا منظر ہندوستان کے ایک معروف دانشور، ماہر تعلیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سن وسال میں ان سے بڑے جناب سیدحامد نے کچھ یوں کھینچا ہے ۔
’’سہ پہر کا وقت ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جامع مسجد کے باہر،گورِغریباں کے پاس چار پانچ گروہوں میں بٹے ہوئے کچھ لوگ کسی کا انتظار کررہے ہیں۔ قرۃالعین کا انتظار۔آج سے 62 سال پہلے بلند شہرکی سول لائن میں بھی سید حامد نے قرۃالعین کا انتظار کیا تھا۔ ذوق و شوق کے ساتھ ۔ آج اگست 2007میں بھی وہ انتظار کر رہا تھا مردنی چھائے ہوئے چہرے کے ساتھ ، اس بار ان کے جنازہ کا جسے اس نے کندھا دیا اور مٹی دی ۔
آں کہ براسپِ طرب شاہ صفت می دیدی
بیں کہ بر مرکب چوبیں بہ چساں می گزرو
(جسے تم سمندِ نشاط پر سوار دیکھا کرتے تھے، دیکھوکہ آج وہ لکڑی کی سواری پر کیسے گزررہا ہے ۔) نماز جنازہ تواتر کے ساتھ دوبار پڑھائی گئی۔ مرنے والی کو دہرا ثواب ملا ہوگا ۔‘‘ان کی ابتدائی کہانیوں کو پڑھ کر ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ طبقہ اعلیٰ کی کہانیاں لکھتی ہیں لیکن ان کی کہانیوں اور ناولوں میں ہمیں متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے کرداروں کا ہجوم ملتا ہے جو وقت کے پُرشور دریا میں ڈوبتا ابھرتا نظر آتا ہے ۔
وہ مغرب سے مرعوب کہی گئیں لیکن ان کے یہاں امت مسلمہ کے بارے میں جیسی فکر مندی ہے، وہ کسی دوسرے ناول یا افسانہ نگار میں نظر نہیں آتی ۔ بیسویں صدی کا مسلمان جس ذہنی اورفکری انتشار میں گرفتار تھا، جمہوریت سے بیگانگی اور اپنی تہذیبی اساس سے نا واقفیت نے اس کے لیے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر جو مسائل پیدا کیے وہ انھیں مضطرب رکھتے تھے۔
ذاتی زندگی میں وہ بات بے بات ناراض ہوجاتی تھیں لیکن جب معاملہ تاریخ اور تہذیب کا ہو تو ان سے بڑا دریا دل نہ تھا۔ وہ انسانوں کو زمین‘ زبان اور عقیدے سے بالاتر ہوکر دیکھتی‘ سمجھتی اور برتتی تھیں۔
بٹوارے اور فسادات کے دنوںمیں ان کی کوٹھی شرنارتھیوںکا ٹھکانہ بنی ، اپنی والدہ کے ساتھ وہ فساد زدہ دہرہ دون سے لکھنؤ جانے والی ٹرین میں سوار ہوئیں، اس کمپارٹمنٹ میں امریکی مشنری عورتیں بھی سفر کررہی تھیں‘ ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر بلوائیوں نے جب کمپارٹمنٹ کوگھیر لیا تو یہ وہی مشنری عورتیں تھیں جنہوں نے قرۃ العین کو لحاف میں چھپا کر اورا س پر بیٹھ کر انھیں ان بلوائیوں کے چنگل سے بچایا جو’’شکار‘‘ کی تلاش میں ڈبے کا دروازہ توڑے دیتے تھے۔
اس وقت ان پر چڑھ کر بیٹھنے والی امریکی نن بھلا کیسے سوچ سکتی تھی کہ زندگی کی سفاکیوں سے سہمی ہوئی بیس برس کی یہ خواب دیکھنے والی لڑکی‘ فسادات کو فرقہ وارانہ عینک سے دیکھنے کے بجائے تاریخ کے تناظر میں دیکھے گی اور اسے سیاست کے گرداب سے اٹھنے والا بگولہ سمجھے گی۔ اس رات قرۃ العین حیدر نے ’’آگ کا دریا‘‘ڈوب کر پار کیا اور صرف دس برس بعد اردو ادب کا وہ شاہکار لکھا جو ایک تخلیقی معجزہ ہے۔
’’آگ کا دریا‘‘ اسی رفیع الشان اور روادار گنگاجمنی تہذیب کا مرقع ہے جسے وہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترک میراث سمجھتی تھیں۔ برصغیر کا کسان‘کمہار‘ کرگھا چلانے والا اور کرخندار عبدالرشید ہو یا رام دین‘ ابھے سنگھ ہو یا کشن کمار‘ خدا بخش سومرو ہو یا محمد احمد بھٹی‘ وہ داتا درباراورلال شہباز قلندر ‘ نظام الدین اولیا ‘ سلیم چشتی اور معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ پر‘دیوا شریف اور پیلی بھیت میں حاضری دیتا ہے چڑھاوے چڑھاتا ہے۔
تبرک اور لنگراور پرشاد کے لیے دھکا پیل سہتا ہے۔ اس کی عورتیں ڈھکے ہوئے سروںاور ننگے پیروں کے ساتھ آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں دعائیںلیے ہوئے ان پیروں فقیروں کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتی ہیں‘ مزاروں کی جالیوں سے دھاگے باندھتی ہیں اور دھمال ڈالتی ہیں۔ یہ کہانیاںنہیں آج کی حقیقت ہیں اور ان میں ہماری اشرافیہ کی عورتیں بھی شامل ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے جیہ بہادری اور ایشوریا رائے کی تصویریں دیکھیں ۔ آنچل سے ڈھکے ہوئے سروں پر مخملیں چادروں کی ٹوکریاں دھرے ننگے پاؤں اجمیر کی درگاہ اورسلیم چشتی کے مزار پر حاضری دے رہی ہیں‘پھول چڑھا رہی ہیں۔
دعا مانگ رہی ہیں اور ان ہی کے ساتھ ابھیشک بچن کی جھلک بھی نظر آتی ہے یہ سب کچھ کٹرپنتھیوں کے سامنے ہورہا ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان سرکو رومال سے ڈھکے ہوئے بابا گرو نانک کی سمادھی پر حاضری دے رہے ہیں اور پرشاد چکھ رہے ہیں۔ نہ کسی کا دھرم بھرشٹ ہورہا ہے اور نہ کسی کے دین میں خلل پڑ رہا ہے۔
ان کی کہانیوں کے موضوعات اور ان میں سانس لینے والے کرداروں کے تنوع کا جائزہ لیجیے تو محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ماضی کے معاملات اور حال کے جدید تر موضوعات کو کس طرح دائرہ تحریر میں لیا ہے ۔ 1967میں انھوں نے اردو میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان خودکش بمبار کا قصہ لکھا۔ اسی طرح وہ اب سے دو دہائی پہلے ’گے ‘ مظاہروں کے بارے میں لکھ چکی تھیں ۔
57یا شاید 58 میں وہ سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان تناؤ اور کشاکش کو محسوس کرچکی تھیں اور ’سیتا ہرن‘ لکھ رہی تھیں ’ آخر شب کے ہم سفر‘ پڑھیے تو نظر آتا ہے کہ بائیں بازو کے ترقی پسند دانشور زندگی سے کیا سمجھوتہ کرنے والے تھے۔ وہ فیمینزم کا پھریرا اڑاتی ہوئی نہیں چلیں لیکن جس درد مندی سے انھوں نے زندگی کی مار سہنے والی عورتوں کے قصے لکھے ، وہ ان ہی پر ختم ہیں۔
عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی ، تصوف پر لکھنے بیٹھیں تو حاجی گل بابا بیکتاشی، ان کے قلم سے نکلا ۔ ایران میں جب شہنشاہیت کا بت زمیں بوس ہوا اور ملائیت کے علم لہرائے تو 1981 یا شاید 1982 میں ’ قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے ‘ جیسا کاٹ دار عالم آشوب لکھا۔ اسے پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس سیاسی بصیرت کی مالک تھیں اور معاملات کو کتنی دیانتداری سے بیان کرتی تھیں۔ ان کی کہانیوں میں ہمیں جرمن، جاپانی، کوریائی، روسی، فلپینو، اور دنیا جہان کی قومیتوں کے لوگ ملتے ہیں ۔وہ درد مندی سے ان کی کہانیاں لکھتی ہیں اور آخر میں مولائے روم کی طرح نے (بانسری) ہاتھ سے رکھتی ہیں اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوجاتی ہیں کہ اس مقام پر میرا راگ ختم ہوا۔
Similar Threads:
Bookmarks