چاند سے میں نے کہا اے میری راتوں کے رفیق
تو کہ سر گشتہ و تنہا تھا صدا میری طرح
اپنے سینے میں چھپائے ہوئے لاکھوں گھاو
تو دکھاوے کے لیے ہنستارہا میری طرح
ضو فشاں حسن تیرا میرے ہنر کی صورت
اور مقدر میں اندھیرے کی ردا میری طرح
وہی تقدیر تیری میری زمیں کی گردش
وہی افلاک کا نخچیرِ جفا میری طرح
ترے منظربھی ہیں ویراں میرے خوابوں جیسے
تیرے قدموں میں بھی زنجیرِ وفا میری طرح
وہی صحرائے شبِ زیست میں تنہا سفری
وہی ویرانہِ جان دشتِ بلا میری طرح
آج کیوں میری رفاقت بھی گراں ہے تجھ کو
تو کبھی اتنا بھی افسردہ نہ تھا میری طرح
چاند نے مجھ سے کہااے میرے پاگل شاعر
تو کہ محرم ہے میرے قریہِ تنہائی کا
تجھ کو معلوم ہے جو زخم میری روح میں ہے
مجھ کو حاصل ہے شرف تیری شناسائی کا
موجزن ہے میرے اطراف میں اک بحرِ سکوت
اور چرچا ہے فضامیں تیری گویائی کا

آج کی شب میرے سینے پہ وہ قابیل اُترا
جس کی گردن پہ دمکتاہے لہو بھائی کا
میرے دامن میں نہ ہیرے ہیں نہ سونا چاندی
اور بجز اس کے نہیں شوق تمنائی کا
مجھ کو دُکھ ہے کہ نہ لے جائیں یہ دنیاوالے
میری دنیا ہے خزانہ میری تنہائی کا