google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 5 of 5

    Thread: مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم س&#

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم س&#

      مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم سے

      مونچھیں تراشنا ایک مشکل فن ہے کہ بندہ ساری زندگی یہ کام کرنے کے بعد بھی اس میں ماہر نہیں ہوتا۔ البتہ وہ متحمل مزاج اور متوازن شخصیت کا مالک ضرور ہو جاتا ہے کہ مونچھیں تراشنا جلد باز اور انتہا پسند شخص کے بس کا روگ نہیں۔ مونچھیں تراشنے والا تو جیب تراش کی طرح ہوتا ہے کہ ذرا سی غلطی ہو جائے، دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

      شروع میں جب انسان کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، قدرت نے اس کے سر پر بالوں کا جنگل اگا دیا جس میں وہ چھپ گیا۔ جب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچا جہاں اسے منہ چھپانے کی ضرورت پیش آئی تو یہ جنگل پھیل کر اس کے چہرے تک آ گیا۔ پھر جب اس نے گارے اور پتھر کی دیواریں اوڑھیں تو وہی بال جنہیں وہ خود کو چھپانے کے لئے استعمال کرتا تھا انہیں تراش کر خود کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کرنے لگا۔ یوں انسانی تہذیب کی بنیاد اس دن پڑی جس روز پہلے انسان نے اپنے بال تراشے۔ شاید اسی لئے ہمارے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو اس مہذب دنیا کا ممبر بنانے کے لئے سب سے پہلے ایک خصوصی تقریب میں اس کے بال ہی تراشے جاتے ہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں آج کے انسان اور جانور میں بس یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان بال تراشتا ہے، جانور نہیں۔

      بچپن، معصومیت اور جوانی اس سے بغاوت کا نام ہے۔ جب کہ بڑھاپا اس بغاوت کی سزا ہے۔ شاید اسی لئے جب بچہ معصومیت کی "حدود" پھلانگتا ہے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوتا ہے تو قدرت اس کے چہرے پر ناک کے نیچے بالوں کی ایک سیاہ لائن لگا دیتی ہے بلکہ ناک تو بنائی ہی مونچھوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے۔ یہ لائن اتنی پکی ہوتی ہے کہ آپ ساری زندگی استرا ہاتھ میں رکھیں پھر بھی اسے نہیں مٹا سکتے، لیکن میرا دوست "ف" کہتا ہے "مونچھیں احتجاجی بینر ہیں جو ہم نے بچپن چھن جانے کے خلاف چہروں پر لٹکا رکھے ہیں۔" حالانکہ اس کی مونچھیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ یہ بینر اس کے چہرے پر نہیں بلکہ اس کا چہرہ اس بینر پر لٹکایا ہوا ہے۔ کہتا ہے "مچھ نہیں تو کچھ نہیں۔" واقعی اس کی مچھ نہ ہوتی تو کچھ نہیں رہتا۔ ذرا سی ہوا چلے تو اس کی مونچھیں یوں پھڑپھڑانے لگتی ہیں جیسے کوئی پرندہ وزنی چیز اٹھانے کی کوشش میں ہو۔ دور سے دیکھو تو لگتا ہے جیسے اس نے سیاہ کپڑے میں منہ لپیٹ رکھا ہے۔ جب اس کی مونچھیں چھوٹی چھوٹی تھیں تو وہ انہیں اپنے ہاتھ سے گھی اور مکھن کھلاتا۔ اب تو ماشا اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ یہ کام خود ہی کرنے لگی ہیں۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت مونچھیں یوں اٹھائے ہوتا ہے جیسے سہرا اٹھا کر کھانا کھا رہا ہو۔ محلے میں کوئی شرارت کرئے تو سزا کے طور پر اس کا منہ چومتا ہے۔ یہاں تک کہ نومولود پیدائش کے وقت نہ روئے تو فوری طور پر اس کا چہرہ دکھاتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ موصوف میں مونچھیں تراشنے کی صلاحیت نہیں، کہتا ہے، "مونچھیں تراشنے کے لئے صلاحیت کی نہیں بس قینچی کی ضرورت ہوتی ہے۔" اسے کون بتائے کہ اس کام کے لئے قینچی اتنی ضروری نہیں ہوتی جتنی عقل۔ بڑی مونچھیں تو بدمعاشی کا داخلہ فارم ہیں کیونکہ بے ترتیب مونچھوں والا دنیا میں کہاں ترتیب لائے گا۔ وہ امن پسند نہیں ہو سکتا۔


      مونچھیں چہرے کا لباس ہیں، شاید اسی لئے عورتوں کی نہیں ہوتیں۔ مونچھیں تراشنا لباس کو ماحول، مرضی اور مزاج کے مطابق ڈھال کر پہننے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ جیسے بچوں کی ساری شخصیت ان کی آنکھوں میں اور عورتون کی دیکھنے والوں کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہے۔ ایسے ہی مرد کی پوری شخصیت ان کی مونچھوں کی بناوٹ میں ہوتی ہے۔ یہ مردوں کا شناختی کارڈ ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ پتہ چلے نہ چلے کہ یہ کیا کرتا ہے، یہ ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

      ہمارے ہاں مونچھ بلوغت کی علامت ہے اور داڑھی بلاغت کی۔ مونچھ کی علیحدہ حیثیت اور شخصیت تو حکومت بھی مانتی ہے۔ جسم کے کسی اور حصے کا الاؤنس اس وقت ملتا ہے جب وہ نہ رہے اور مونچھ الاؤنس اس وقت جب یہ چہرے پر موجود ہو۔ مونچھ مرد کا زیور ہے۔ گاؤں میں تو مونچھیں منڈوا کر پھرنے سے بےپردگی ہوتی ہے۔ بڑے بوڑھے سخت برا مناتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظریں اتنی کمزور ہو چکی ہوتی ہیں کہ انہوں نے مونچھیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ آیا ہے یا آئی ہے۔ اور تو اور جب تک مونچھ نہ ہو کوئی پنجابی فلم نہیں بن سکتی۔ پہلے تو اردو فلموں میں بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی اور وہ ہیرو کے ناک کے نیچے یوں لیٹی ہوتی جیسے کسی اہم سطر کو کالی پنسل سے انڈر لائن کیا گیا ہے۔

      درخت زمین کے چہرے پر اُگے بال ہیں جو گھنے ہو کر جنگل کی صورت میں زمین کی مونچھیں بناتے ہیں۔جن سے ڈر کر ہوائیں اس علاقے میں مٹی نہیں اڑاتیں اور مٹی سبز چادر اوڑھ کر سامنے آتی ہے۔ بادل ان کے خوف سے اوپر سے گزرتے گزرتے پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور جب ان مونچھوں کو تراش لیا جائے تو یہ پارک اور باغ بن جاتی ہیں۔ ایسے ہی چہرے کی مونچھیں تراشنے کے بعد نہ صرف آپ کے چہرے پر بلکہ دیکھنے والے کے چہرے پر بھی ملائمت آ جاتی ہے۔

      مونچھیں آپ کے بُرے وقت کی ساتھی ہیں، آپ کسی کی گردن نہیں مروڑ سکتے تو اپنی مونچھیں مروڑ کر غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ پریشان ہیں، کسی کا انتظار کر رہے ہیں تو ان پر ہاتھ پھیرکر وقت گزار لیں۔ آپ کو باغبانی کا شوق ہے تو مونچھوں کی پرورش اور کانٹ چھانٹ کر کے اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ مونچھیں تو مردوں کا ایکسلریٹر ہیں، اس لئے وہ لڑنے سے پہلے مونچھوں کو بل دیتے ہیں

      مونچھیں تراشنا میری پسندیدہ ان ڈور گیم ہے۔ اس کھیل میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت اکیلا کھیل سکتا ہے۔ مگر یہ بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ یہ ہار اتنی مہنگی ہے کہ ہارنے والے کو ہفتوں منہ چھپائے رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے تو مقابلوں میں بڑی سے بڑی شرط یہی لگائی جاتی ہے کہ ہار گیا تو مونچھیں منڈوا دوں گا۔ شاید اسی لئے شادی کے بعد اکثر لوگ مونچھیں صاف کروا دیتے ہیں۔ میں تو بڑا ڈرتے ڈرتے مونچھوں کو قینچی لگاتا ہوں اور ڈرنے میں برائی ہی کیا ہے؟

      مونچھیں تراشنا دراصل توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ دنیا میں پہلی کلین شیو اس دن ہوئی جب مونچھیں تراشنے والے سے ایک مونچھ چھوٹی ہو گئی اور دوسری بڑی۔ بڑی کو چھوٹی کرنے کی کوشش کی تو چھوٹی بڑی ہو گئی اور یوں ہوتے ہوتے کلین شیو ہو گئی۔ میں جب دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں قینچیاں دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ کیونکہ ایک بار ہٹلر نے توازن بگاڑا تھا تو مونچھ سکڑ کر مکھی مونچھ بن گئی تھی۔ اگر اب توازن بگڑ گیا تو پھر دنیا کو کلین شیو ہونے سے کوئی نہ بچا سکے گا۔



      Similar Threads:

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم ž

      Nice Sharing
      Thanks For Sharing


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم &

      Quote Originally Posted by UmerAmer View Post
      Nice Sharing
      Thanks For Sharing



    4. #4
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      511

      Re: مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم ž

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم سے

      مونچھیں تراشنا ایک مشکل فن ہے کہ بندہ ساری زندگی یہ کام کرنے کے بعد بھی اس میں ماہر نہیں ہوتا۔ البتہ وہ متحمل مزاج اور متوازن شخصیت کا مالک ضرور ہو جاتا ہے کہ مونچھیں تراشنا جلد باز اور انتہا پسند شخص کے بس کا روگ نہیں۔ مونچھیں تراشنے والا تو جیب تراش کی طرح ہوتا ہے کہ ذرا سی غلطی ہو جائے، دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

      شروع میں جب انسان کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، قدرت نے اس کے سر پر بالوں کا جنگل اگا دیا جس میں وہ چھپ گیا۔ جب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچا جہاں اسے منہ چھپانے کی ضرورت پیش آئی تو یہ جنگل پھیل کر اس کے چہرے تک آ گیا۔ پھر جب اس نے گارے اور پتھر کی دیواریں اوڑھیں تو وہی بال جنہیں وہ خود کو چھپانے کے لئے استعمال کرتا تھا انہیں تراش کر خود کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کرنے لگا۔ یوں انسانی تہذیب کی بنیاد اس دن پڑی جس روز پہلے انسان نے اپنے بال تراشے۔ شاید اسی لئے ہمارے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو اس مہذب دنیا کا ممبر بنانے کے لئے سب سے پہلے ایک خصوصی تقریب میں اس کے بال ہی تراشے جاتے ہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں آج کے انسان اور جانور میں بس یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان بال تراشتا ہے، جانور نہیں۔

      بچپن، معصومیت اور جوانی اس سے بغاوت کا نام ہے۔ جب کہ بڑھاپا اس بغاوت کی سزا ہے۔ شاید اسی لئے جب بچہ معصومیت کی "حدود" پھلانگتا ہے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوتا ہے تو قدرت اس کے چہرے پر ناک کے نیچے بالوں کی ایک سیاہ لائن لگا دیتی ہے بلکہ ناک تو بنائی ہی مونچھوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے۔ یہ لائن اتنی پکی ہوتی ہے کہ آپ ساری زندگی استرا ہاتھ میں رکھیں پھر بھی اسے نہیں مٹا سکتے، لیکن میرا دوست "ف" کہتا ہے "مونچھیں احتجاجی بینر ہیں جو ہم نے بچپن چھن جانے کے خلاف چہروں پر لٹکا رکھے ہیں۔" حالانکہ اس کی مونچھیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ یہ بینر اس کے چہرے پر نہیں بلکہ اس کا چہرہ اس بینر پر لٹکایا ہوا ہے۔ کہتا ہے "مچھ نہیں تو کچھ نہیں۔" واقعی اس کی مچھ نہ ہوتی تو کچھ نہیں رہتا۔ ذرا سی ہوا چلے تو اس کی مونچھیں یوں پھڑپھڑانے لگتی ہیں جیسے کوئی پرندہ وزنی چیز اٹھانے کی کوشش میں ہو۔ دور سے دیکھو تو لگتا ہے جیسے اس نے سیاہ کپڑے میں منہ لپیٹ رکھا ہے۔ جب اس کی مونچھیں چھوٹی چھوٹی تھیں تو وہ انہیں اپنے ہاتھ سے گھی اور مکھن کھلاتا۔ اب تو ماشا اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ یہ کام خود ہی کرنے لگی ہیں۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت مونچھیں یوں اٹھائے ہوتا ہے جیسے سہرا اٹھا کر کھانا کھا رہا ہو۔ محلے میں کوئی شرارت کرئے تو سزا کے طور پر اس کا منہ چومتا ہے۔ یہاں تک کہ نومولود پیدائش کے وقت نہ روئے تو فوری طور پر اس کا چہرہ دکھاتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ موصوف میں مونچھیں تراشنے کی صلاحیت نہیں، کہتا ہے، "مونچھیں تراشنے کے لئے صلاحیت کی نہیں بس قینچی کی ضرورت ہوتی ہے۔" اسے کون بتائے کہ اس کام کے لئے قینچی اتنی ضروری نہیں ہوتی جتنی عقل۔ بڑی مونچھیں تو بدمعاشی کا داخلہ فارم ہیں کیونکہ بے ترتیب مونچھوں والا دنیا میں کہاں ترتیب لائے گا۔ وہ امن پسند نہیں ہو سکتا۔


      مونچھیں چہرے کا لباس ہیں، شاید اسی لئے عورتوں کی نہیں ہوتیں۔ مونچھیں تراشنا لباس کو ماحول، مرضی اور مزاج کے مطابق ڈھال کر پہننے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ جیسے بچوں کی ساری شخصیت ان کی آنکھوں میں اور عورتون کی دیکھنے والوں کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہے۔ ایسے ہی مرد کی پوری شخصیت ان کی مونچھوں کی بناوٹ میں ہوتی ہے۔ یہ مردوں کا شناختی کارڈ ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ پتہ چلے نہ چلے کہ یہ کیا کرتا ہے، یہ ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

      ہمارے ہاں مونچھ بلوغت کی علامت ہے اور داڑھی بلاغت کی۔ مونچھ کی علیحدہ حیثیت اور شخصیت تو حکومت بھی مانتی ہے۔ جسم کے کسی اور حصے کا الاؤنس اس وقت ملتا ہے جب وہ نہ رہے اور مونچھ الاؤنس اس وقت جب یہ چہرے پر موجود ہو۔ مونچھ مرد کا زیور ہے۔ گاؤں میں تو مونچھیں منڈوا کر پھرنے سے بےپردگی ہوتی ہے۔ بڑے بوڑھے سخت برا مناتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظریں اتنی کمزور ہو چکی ہوتی ہیں کہ انہوں نے مونچھیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ آیا ہے یا آئی ہے۔ اور تو اور جب تک مونچھ نہ ہو کوئی پنجابی فلم نہیں بن سکتی۔ پہلے تو اردو فلموں میں بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی اور وہ ہیرو کے ناک کے نیچے یوں لیٹی ہوتی جیسے کسی اہم سطر کو کالی پنسل سے انڈر لائن کیا گیا ہے۔

      درخت زمین کے چہرے پر اُگے بال ہیں جو گھنے ہو کر جنگل کی صورت میں زمین کی مونچھیں بناتے ہیں۔جن سے ڈر کر ہوائیں اس علاقے میں مٹی نہیں اڑاتیں اور مٹی سبز چادر اوڑھ کر سامنے آتی ہے۔ بادل ان کے خوف سے اوپر سے گزرتے گزرتے پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور جب ان مونچھوں کو تراش لیا جائے تو یہ پارک اور باغ بن جاتی ہیں۔ ایسے ہی چہرے کی مونچھیں تراشنے کے بعد نہ صرف آپ کے چہرے پر بلکہ دیکھنے والے کے چہرے پر بھی ملائمت آ جاتی ہے۔

      مونچھیں آپ کے بُرے وقت کی ساتھی ہیں، آپ کسی کی گردن نہیں مروڑ سکتے تو اپنی مونچھیں مروڑ کر غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ پریشان ہیں، کسی کا انتظار کر رہے ہیں تو ان پر ہاتھ پھیرکر وقت گزار لیں۔ آپ کو باغبانی کا شوق ہے تو مونچھوں کی پرورش اور کانٹ چھانٹ کر کے اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ مونچھیں تو مردوں کا ایکسلریٹر ہیں، اس لئے وہ لڑنے سے پہلے مونچھوں کو بل دیتے ہیں

      مونچھیں تراشنا میری پسندیدہ ان ڈور گیم ہے۔ اس کھیل میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت اکیلا کھیل سکتا ہے۔ مگر یہ بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ یہ ہار اتنی مہنگی ہے کہ ہارنے والے کو ہفتوں منہ چھپائے رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے تو مقابلوں میں بڑی سے بڑی شرط یہی لگائی جاتی ہے کہ ہار گیا تو مونچھیں منڈوا دوں گا۔ شاید اسی لئے شادی کے بعد اکثر لوگ مونچھیں صاف کروا دیتے ہیں۔ میں تو بڑا ڈرتے ڈرتے مونچھوں کو قینچی لگاتا ہوں اور ڈرنے میں برائی ہی کیا ہے؟

      مونچھیں تراشنا دراصل توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ دنیا میں پہلی کلین شیو اس دن ہوئی جب مونچھیں تراشنے والے سے ایک مونچھ چھوٹی ہو گئی اور دوسری بڑی۔ بڑی کو چھوٹی کرنے کی کوشش کی تو چھوٹی بڑی ہو گئی اور یوں ہوتے ہوتے کلین شیو ہو گئی۔ میں جب دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں قینچیاں دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ کیونکہ ایک بار ہٹلر نے توازن بگاڑا تھا تو مونچھ سکڑ کر مکھی مونچھ بن گئی تھی۔ اگر اب توازن بگڑ گیا تو پھر دنیا کو کلین شیو ہونے سے کوئی نہ بچا سکے گا۔

      Umda Intekhab
      sharing ka shukariya


    5. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم ž

      پسند کرنے کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •