ایسے ہاتھ عموماً لمبے ہوتے ہیں۔ ان کا خطِ ذہن خم کھا کر نیچے کو مڑا ہوا ہوتا ہے اور ابھارِ ماہتاب اپنی بنیاد کے قریب سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ خطِ ذہن خطِ زندگی سے ملا ہوتا ہے جو جذبات کو زیادہ شدید بنا دیتا ہے۔ جس کے باعث ایسا شخص زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اس حالت میں ایسا شخص فطری طور پر بیمار ذہنیت کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں خودکشی کے رحجانات ہوتے ہیں۔ مگر ایسے شخص کی طبیعت اتنی حساس ہوتی ہے کہ ذرا سا غم بھی اسے بہت بڑا معلوم ہونے لگتا ہے۔ اور یہی غم اس کی خودکشی کی وجہ بن جاتا ہے۔ اس کا عکس ملاحظہ فرمائیے۔ انہیں علامتوں کے ساتھ اگر ابھارِ سرطان زیادہ ترقی یافتہ ہو تو ایسا شخص بڑا حساس اور بیمار ذہنیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایسا شخص ہر قسم کے حالات میں یہی سوچتا ہے کہ زندگی میں کچھ نہیں رکھا۔ لہٰذا ذرا سا دکھ اور تکلیف اسے زندگی سے فرار حاصل کرنے کا موقع دے دیتے ہیں۔ اور وہ اپنی آخری منزل کو پا لیتے ہیں۔ ایک بہت زیادہ خمیدہ اور مڑی ہوئی ذہنی لکیر ایک نوکیلے اور مخروطی ہاتھ پر بھی انہی نتائج کی حامل ہے۔ مگر ایسا شخص بالکل اچانک خودکشی کر لیتا ہے ایسے شخص کو کوئی صدمہ یا رنج خود کشی کے لیے کافی ہوتا ہے اور کچھ سوچنے سے پہلے وہ اپنا کام تمام کر لیتا ہے۔ جب خطِ ذہن نیچے کی طرف زیادہ مڑا ہوا نہ ہو۔ مگر خطِ زندگی کے ساتھ ساتھ چلے۔ ابھارِ مشتری زیادہ ابھرا ہوا نہ ہو اور ابھارِ سرطان زیادہ ترقی یافتہ ہو تو معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا ذہن بڑا مغموم اور اداس ہوتا ہے۔ مگر وہ زندگی کے ہر پہلو پر بہت سوچ بچار کرتا ہے۔ جب ہر قسم کی سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ زندگی کے مصائب تو کبھی ختم نہ ہوں گے۔ تب وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی خودکشی کی وجہ بڑی معقول ہوتی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایسے شخص نے زندگی کے متعلق کیا سوچا تھا اور وہ کن نتائج پر پہنچا تھا۔ ہم سب لوگ اپنے اپنے کاموںمیں اس درجہ مشغول رہتے ہیں کہ کسی زرد اور تھکے ہوئے چہرے کے پیچھے جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ (پامسٹری کے شہرئہ آفاق مصنف کیرو کی کتاب’’ہاتھ کے راز‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks