شروع کے کچھ برس میں پاکستان نیشنل سنٹر، جہاں حلقہ کے اجلاس ہوتے تھے ،کے قریب ہی رہتاتھا اوربعض اوقات سکوٹر گھر پرچھوڑ جاتا تھا۔ ایک روز رات گیارہ بارہ بجے جب میری بیگم باہر کا دروازہ بند کرنے لگیں تو کاریڈورجہاں سکوٹرکھڑی کی جاتی تھی خالی خالی نظر آئی ۔مجھ سے پوچھا سکوٹر کہاں ہے؟میرے تو ہوش اڑ گئے ۔وہ تو میں نے اجلاس سے پہلے چار بجے پاکستان نیشنل سنٹر کے پارکنگ ایریامیں کھڑی کی تھی اورواپسی پرہم لوگ ہوٹل میںچائے پینے چلے گئے اورپھروہاں سے میں یہ سمجھ کرکہ میں آج سکوٹر نہیںلایا ، گھر چلا آیا تھا۔ سردیوں کے دن تھے اور رات کے بارہ بج رہے تھے۔ مجھے قطعاً امید نہیں تھی کہ سکوٹراب تک وہاں موجود ہوگی مگریہ دیکھ کرخوشگوارحیرت ہوئی کہ وہ موجود تھی ۔یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے کاواقعہ ہے ۔آج کی سماجی صورت ِ حال کااس سے موازنہ کر کے دیکھیں توامن وامان اور اقدار کے عروج و زوال کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔ میں سمجھتاہوں کہ حلقہ کی کامیابی اور طویل عمری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تنظیم کسی مخصوص سیاسی یا ادبی نظریے یا تحریک کی انگلی پکڑکرنہیں چلتی ۔اگر حلقہ کے اراکین سیاسی یا نظریاتی گروہ بندیوں میں لگ جاتے توحلقہ ختم ہو جاتا ۔ یوںحلقہ کئی بار انتخابی بحرانوں کاشکار ہوا۔اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ لوگوں نے اسے اکھاڑابنانے اور اراکین میں باہمی نفاق ڈالنے کی کوشش بھی کی ،مگر اس ادارے میں کئی بحرانوں کاسامنا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اوراگرچہ حلقہ ایک غیر سیاسی ادارہ ہے لیکن قومی اورسیاسی مسائل اورحالات سے بے تعلق رہنا اورمحض جمالیاتی اورذاتی مسائل تک خود کو محدود رکھنا ممکن ہے اور نہ ہی مستحسن ۔اس کے باوجود حلقہ کسی سیاسی جماعت یا مخصوص سیاسی نظریے کاتابع فرمان کبھی نہیں ہوا بلکہ سیاسی اورادبی نظریے اس سے رہنمائی اورروشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ حلقہ کی ایک اورخصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی صورت کبھی اختیار نہیں کرتا۔اگرچہ بعض لوگوں کودیکھاکہ سال ہاسال سے حلقے کی محفلوں میں گفتگو سن رہے ہیں اور بحثوں میں حصہ لے رہے ہیں لیکن حلقہ ان کاکچھ نہیں بگاڑسکا۔وہ جوسبق گھرسے پڑھ کرآئے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں سیکھا۔ زمانہ بدل گیا ،چیزیں اور ماحول تبدیل ہوگیا مگر ان کی سوچ اور فکرمیں ذراسی تبدیلی نہیں آئی مگرحلقہ تند و تیز ندی کی طرح بہتارہتاہے اورآپ جانتے ہیں پانی بہتا رہے تو گندانہیں ہو تااور اس میں بدبوپیدا نہیں ہوتی ۔ رواں پانی کو اسی لئے پاک کہاجاتاہے۔یہاں ہرمکتبہ ء ِفکر کے ادیبوں اوردانشوروں کواپنے خیالات کے اظہار اور اپنی رائے دینے کی آزادی ہے۔ اس لئے یہ ادیبوں کاایک ایسا نمائندہ جمہوری ادبی فورم بن گیا ہے جہاں ہر طرح کے خیالات یافکری تحریکات اور نظریات کا بے باکی سے اظہار ہوتاہے۔ یہاں اختلاف ہوتاہے ،الزام تراشیاں ہوتی ہیں، کڑی اورکڑوی تنقید ہوتی ہے اوریہ سب کچھ برداشت کیا جاتا اوربرداشت کرنے کی تربیت ملتی ہے ۔حلقہ میں بے پناہ لچک ہے وہ ہرطرح کے خیالات رکھنے والوں اورنئے نئے خیالات ،تجربات اوراسالیب کواپنے اندر جذب کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتاہے۔ نئے لکھنے والوں کی تعلیم وتہذیب حلقہ کے اغراض ومقاصد میں شامل ہے لیکن یہاں پرانے لکھنے والے بھی جلاپاتے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے ایک ایسے مشاعرے میں جانے کا اتفاق ہواجس کے شرکاء میںزیادہ ترایسے لوگ تھے جن کا حلقہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔انہیں بے پناہ دادبھی مل رہی تھی۔ یہ دیکھ کرافسوس ہواکہ ان حضرات کی عمریں گزر گئی تھیں‘بال سفید ہوگئے تھے مگرانہیں کسی نے نہیں بتایاتھا کہ وہ جوکچھ پڑھ رہے ہیں اس کا کوئی ادبی مقام بھی تھا کہ نہیں اوراس قسم کی شاعری کی موجودہ زمانے میں ضرورت بھی تھی یانہیں ۔مگر جب دوچارایسے شعراء پڑھنے آئے جوحلقے سے وابستہ تھے تواگرچہ انہیں کچھ زیادہ دادنہ ملی مگر ان کی شاعری میںزندہ ادبی رویوں کارنگ نمایاں تھا۔ تنقید، تجزیہ اوراحتساب حلقہ کاطرہ ئِ امتیاز ہے۔ حلقہ نے ادب اورتنقیدِ ادب کوزندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی جو ذمہ داری اپنے سرلی ہے وہ اسے نہایت کامیابی سے نبھا ہ رہاہے۔ حلقہ اعلیٰ اورسنجیدہ ادب اورادبی قدروں کاامین ہے۔دروغ گوئی کی رتوں اورمصلحت پسندیوں کے اندھیروں میں بھی یہاں حق گوئی کی موم بتیاں روشن رہتی ہیں ۔حلقہ ایک ادبی فورم ہی مہیا نہیں کرتاجہاں ہم کھل کر ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں بلکہ حلقہ ہمیں بے پناہ تخلیقی توانائی ،قوت اور اعتماد بخشتاہے۔ حلقہ ملک کے ادیبوں کی زبان ہے اوریہ ہمارا وہ اصلی گھر ہے جہاں ہم ہفتہ بھر سفر میں رہ کر اپنوں سے آکر ملاقات کرتے ہیں ۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اسلام آبادحلقے کے قیام کی طرح مجھے اس کی ویب سائیٹ بنانے اوراسے رپورٹوں اور تصاویر سے اپ ڈیٹ رکھنے کافخر بھی حاصل ہے۔ (منشایاد کی کتاب ’’حسبِ منشاسے اقتباس‘‘)


Similar Threads: