بن پنجرے کےقفس / دائمی قید / کس نے چھینا سکون؟
بھابی کیا کھانا تیار ہو گیا؟ سلمیٰ کی پندرہ سالا نند کلثوم نے اس سے رعب دار آواز میں پوچھا۔ سلمیٰ آنکھیں گھر کے مرکزی دروازے پر مرکوز کیے، سوچوں کے گمنام سمندر میں کھوئی ہوئی باورچی خانے کے تھڑے پر بیھٹی تھی کہ سوریہ کے یوں اچانک استفسار سے وہ ہڑبڑا کر کھڑئی ہو گی اور مدہم سی آواز میں جواب دیا،،، ہاں جی تیار ہے کھانا۔ سوریہ نے حکم صادر کیا کہ میرے لیے روٹی بنا دو اور اپنے کمرے کی طرف چل دی جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوں ۔ سلمیٰ کی ساس نہیں تھی مگر اس کی نند اس کو ساس کی کمی محسوس ہونے نہ دیتی تھی۔ اس کی نند کے لہجے میں ہر وقت کڑواہٹ اور تلخی ہوتی تھی۔ لیکن اب سلمیٰ کو ایسے رویوں کی عادت ہو چکی تھی۔
سلمیٰ جسمانی لحاظ سے تو وہی پر موجود ہوتی مگر ذہنی طور پر وہ کہیں اور ہوتی۔اس کو ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی لامحدود سوچوں کو سمندر سے جھنجھوڑ کر حقیقی دنیا میں لاتا تھا ۔ کبھی اس کا دیور کہتا بھابی کپڑے استری کر دو تو کبھی سسر کہتا میرا حقہ تیار کر دو، تو کبھی اس کی بڑی نند کے بچے آجاتے جو سارا دن ادھم مچاتے اور اس سے طرح طرح کے کھانوں کی فرمائشیں کرتے۔غرض اس کا پورا دن گھر کے کاموں کو سمیٹینے اور گھر والوں کے ناز اٹھاتے گزر جاتا۔ لیکن اکثردن کے وقت ، جب بچےکھیلوں میں مصروف ہوتے اور باقی گھر کے افراد بھی اِدھر ادھر اپنے کاموں سے گئے ہوتے تو وہ گھر کے مرکزی دروازے پر نظریں جما کر اسے گھورتی رہتی۔ دکھنے میں ایسے لگتا تھا جیسے وہ خالی الدماغ بس دروازے کو گھور رہی ہے۔لیکن کوئی اگر اسے غور سے دیکھتا تو اسے معلوم ہوسکتا کہ اس کی آنکھوں میں آنسوں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ لیکن کون اسے دیکھتا؟ سب گھر والے تو اپنی اپنی زندگیوں میں محو تھے۔ وہ خود ہی ڈوپٹے کے پلو سے آنسو پونچتی اور دیوانوں کی طرح پھر سے دروازے پر اپنی نظریں جما لیتی۔ رات رات بھر بھی وہ ایسے ہی جاگتی سب گھر والے خوابوں کی دنیا میں ہوتے مگر وہ پہراداروں کی طرح بیٹھی رہتی اور دروزاہ تکتی رہتی۔ اس کے اس رویے سے یوں لگتا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔
آس پڑوس کے لوگوں نے سلمیٰ کو کبھی ہنستے مسکراتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ گھر والوں نے بھی کبھی توجہ ہی نہیں لی تھی کہ سلمیٰ نے ایک عرصہ سے ہسنا مسکرانا، باتیں کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کی شادی کو تین سال ہی ہوئے تھے مگر اس نے سجنا سنورنا تو دور کی با ڈھنگ کے کپڑے پہننے بھی چھوڑ دیئے تھے۔۔ وہ گم سم بس کاموں میں ہی لگی رہتی تھی۔ کبھی کسی کو ظاہر نہ کرتی کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ ظاہر کرنا چا ہتی بھی تو کس کو کرتی؟ آخرکون تھا اس گھر میں اس کی بات سننے والا؟ آج تک کسی نے اس کے حلیے کا نوٹس نہیں لیا تھا تو بھلا وہ کسی سے دلجعوئی کی امید کیسے کر سکتی تھی؟
اس گھر میں اس کاجو سا تھی تھا وہ تو پچلھے تین برس سےمفلسی سے تنگ آکر سعودی عرب گیا ہوا تھا۔ دلھن بننے کے دس دن بعد سے ہی وہ اپنے شوہر،عارف، کا انتظار کر رہی تھی۔وہ جس کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی تھی مسلسل اسی کے انتظار میں بیھٹی تھی۔ پہلے پہل اس کو امید تھی کہ اس کا شوہرعارف اس کو بہت جلد اپنے پاس بلا لے گا۔کیونکہ اس کے تایا نےاس کی ماں کو یہی کہہ کرشادی کروائی تھی کہ بس دو تین مہینوں کی بات ہے عارف جیسے ہی باہر سیٹل ہوگا وہ سلمیٰ کو بھی اپنے ساتھ لے جائے گا۔مگرآج تین سال گزر جانے کے باوجود بھی وہ اپنے شوہر کے انتظار میں اپنے تایا کے گھر ہی تھی اپنے تایا اور باقی تمام افراد کی دیکھ بھال کرتے ہوئے وقت گزار رہی تھی۔اس کا اور اس کے شوہر کا بس دس دن کا تھا اورسلمٰی وہی ساتھ نبھانے کی خاطر اس گھر میں گزشتہ تین برسوں سے مقیم تھی۔ سلمیٰ کی ماں بہاولپور میں رہتی تھی جوبس ایک بار اپنی بیٹی کو ملنے آئی تھی۔ سلمٰی کے گھر کے حالات کافی تنگ تھے۔جو پیسے اس کا شوہر بھجتا وہ اس کا تایا اپنے پاس رکھ لیتااورباقی اس کی نند کی شادی کے لیے جمع کر لیے جاتے۔ سلمیٰ کے دیور کے پاس موبائل فون تھا جو اس گھر میں واحد فون تھا۔ اس پر کبھی کبھارعارف کا فون آ جاتا مگر سلمیٰ سب کے سامنے اس سے صرف حال چال پوچھنے کے علاوہ کوئی بات نہیں کر پاتی تھی۔
پہلے پہل سلمیٰ کو یقین تھا کہعارف بہت جلد اس کو بلا لے گا مگر اب اس کا سارا یقین ختم ہو چکا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھی ۔وہ بس زندگی گزار رہی تھی۔ اس کی تنہائی اور اداسی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ وہ بس مشین کی طرح سب گھر والوں کے کام کرتی اور رات کو گم سم دروازہ تکتی یا تکیے میں منہ چھپائے روتی رہتی۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ اس کے اختیار میں انتظار کے سوا کچھ نہیں تھا۔اس کی مجبوری تھی ایک ایسا گھر بسا نا جہاں اس کا شوہر بھی نہیں تھا ۔ اس کی ہی نہیں ھمارے معاشرے میں اور بے شمار لڑکیاں اِسی مجبوری کے تحت گھر بسا رہی ہیں۔ہزاروں سلمیٰ جیسی لڑکیاں ہیں جوذہنی تناواور مسلمل تنہائی کی لمبی مسافت کے باوجود زندگی گزار رہی ہیں۔ تھکن سے بدن چور ہونے کے باوجود وہ اپنے والدین کی لاج کی خاطر گھر بسا ئے ہوئے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکی بوجھ ہے ۔ جیسے ہی لڑکی جوان ہوتی اس کے والدین کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو جاتی ہیں۔ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکی بیٹی سخی رہے ۔اگر لڑکا ریال، پاونڈاور ڈالرکماتا ہو تو وہ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے انہیں لگتا ہے کہ ان کی بیٹی کی اگر ایسے لڑکے سے شادی ہو گی تو ان کی بیٹی عیش وسکون میں رہے گی جبکہ بھولے ماں پاب یہ بھول جاتے ہیں کہ سکون دولت کی ریل پیل سے نہیں بلکہ حقیقی رشتوں کے ساتھ سے ملتا ہے۔ ذہنی ،جذباتی حتیٰ کہ جسمانی ضروریات کا وقت پر پورا ہونا صحت اور آرام دہ زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہےنہ کہ دولت۔
Similar Threads:
Bookmarks