چراغ حسن حسرت
میرے دوست چودھری علی محمد باتونی حجاموں سے بہت ڈرتے ہیں۔ اور اس معاملے میں وہ حق بجانب ہیں، کیونکہ اُن کا حجام جس کے خاندان میں سو پشت سے ’’حجامی‘‘ یا یوں کہیے کہ ’’خلافت‘‘ چلی آتی ہے ‘ اسی طرح ان کا مزاج شناس ہے جس طرح اس کے باپ دادا‘ چودھری صاحب کے آبائواجداد کے مزاج شناس تھے۔ جہاں خط بناتے ہوئے اُسترا شہ رگ کے قریب پہنچا، خلیفہ نے کہا: ’’چودھری، بھینس کے لیے گھاس چاہیے۔‘‘ چودھری بچارا اس حالت میں انکار کرنے سے تو رہا، چہرے پر مسکراہٹ کے آثار پیدا کرنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیا:’’لے جائیو۔‘‘ خلیفہ نے پانی مرتادیکھ کر پائوں پسارے اور کہنے لگا:’’ چودھری، اب کے دھان سے ہمیں کوئی حصہ نہیں ملا۔‘‘چودھری بولے:’’ ملے گا، ضرور ملے گا۔‘‘غرض خلیفہ نے خط بناتے بناتے بچارے چودھری کو مونڈ لیا۔ میں باتونی حجاموں سے کبھی نہیں ڈرا تھا، لیکن پارسال ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اُن کی ہیبت میرے دل پر بٹھا دی۔ شام کا وقت تھا اور میں ایک دعوت میں شریک ہونے جارہا تھا۔ رپن سٹریٹ سے آگے بڑھا تو سامنے ایک حجام کی دکان نظر آئی۔ کلام پاک میرے سرہانے سے غائب، روشنی گل اور مجھ کو اور آپ کو باندھ دیا گیااور پھر آپ کہتے ہیں کہ رسی رینگ رہی تھی۔ ہم نے کہا:’’ جی ہاں جناب! مجھ کو تو بالکل یہ معلوم ہوا‘ گویا میں کسی جاندار سانپ سے بندھا ہوا ہوں۔ مجھ کو اس میں حرکت محسوس ہوئی۔ کیا آپ کی رسی نہیں رینگی؟‘‘غور کرکے کہنے لگے:’’ شبہ تو کچھ مجھ تو بھی ہوا تھا، مگر میں نے رسی کو چھوا تک نہیں کہ خدا جانے کیا واردات ہو۔۔‘‘ ہم نے سنجیدگی سے کہا:’’بہت اچھا کیا کہ آپ نے رسی نہ چھوئی بہرحال جناب اب میں تو اس مکان میں سو نہیں سکتا۔ آپ جانیں اورآپ کا کام۔‘‘ کہنے لگے:’’ حضرت میں خود نہیں سو سکتا۔ جان بچی سو لاکھوں پائے، مگر ایک سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کلام پاک میرے پاس سے نہ اُٹھایا جاتا، تو یہ واقعہ نہیں ہوسکتا تھا ورنہ کلامِ پاک اُٹھانے کی کیاوجہ؟‘‘ عرض کیا۔’’ہاں صاحب یہ بات تو واقعی آپ نے خوب نکالی۔ یقیناً کلامِ پاک کی موجودگی میں یہ باتیں نہیں ہوسکتی تھیں۔‘‘ مولانا اس ادھیڑ بن میں رہے اور ہم دفتر چلے گئے‘ معلوم نہیں دن بھر مولانا نے کیا کیا۔ بہرحال جب ہم شام کو دفتر سے وپس آئے ، تو یہی معلوم ہوا کہ مولانا تمام دن اپنے دولت خانے تشریف نہیں لے گئے اور غریب خانے ہی پر رونق افروز رہے ہیں۔ ہم کو دیکھتے ہی کہنے لگے: ’’بھائی صاحب میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ یا تو میں اپنے کو مسلمان کہنا چھوڑ دوں ورنہ میں رہوں گا اسی مکان میں۔ اس قسم کے بھوت پریت سے ایک سچے مسلمان کے ڈرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ یا تو مسلمان نہیں ہے ورنہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلامی تعلیم کو جھوٹا سمجھتا ہے۔‘‘ ہم نے ایک سچے مسلمان کی طرح کہا: ’’جزاک اللہ! مولانا واقعی آپ مسلمان ہیں۔ خدا کرے ہر مسلمان ایسا ہی مضبوط ایمان رکھے اور خدا مجھ کو بھی ایمانی تقویت عطا کرے۔‘‘ فخر سے بولے:’’ لاحول ولاقوۃ میں ان گیڈر بھبکیوں سے مرعوب ہرکر مکان نہیں چھوڑ سکتا۔ جو مجھ کو ستاتے ہیں ان ہی کو مکان چھوڑنا پڑے گا۔ میں ان بھوتوں کے لیے خود بھوت بن کر رہوں گا۔‘‘ ہم نے کہا:’’ مگر جناب میں آج وہاں نہیں رہوں گا خواہ اس کو آپ ایمانی کمزوری کہیں یا کچھ مجھ کو اس کا اعتراف ہے، مگر مجبور ہوں میں اپنے دل سے۔‘‘ ذرا سنبھل کر بولے:’’ آپ اپنے ملازم کو وہاں سلا لیجئے گا۔‘‘ مولانا راضی ہوگئے اور یہاں ملازم کو پڑھانے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ خود اس قسم کے معاملا ت میں گریجوایٹ قسم کا انسان واقع ہوا تھا۔ بہرحال رات کو دس بجے تک تو ہم خود مولانا کے پاس بیٹھے رہے اور جب وہ تعویذ وغیرہ اپنے بازو پر باندھ کر بستر پر جانے لگے، تو ہم بھی ملازم سے یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ ذرا ہوشیار سونا اور خبردار !ڈرنا نہیں۔ مولانا موجود ہی ہیں۔ یہ کہتے کہتے خلیفہ نے اُسترے کو اس طرح گھمانا شروع کیا کہ میں سہم گیا۔ تھوڑی دیر وہ چپ چاپ حجامت کرتا رہا‘ پھر کہنے لگا: ’’ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر کوئی حجام حجامت کرتے کرتے پاگل ہوجائے‘ تو کیا ہو؟ دیکھئے نا! اس وقت اُسترا آپ کے خلق پر ہے۔ اگر میں چاہوں تو…‘‘ یہ کہہ اُس نے اس طرح میری طرف دیکھا کہ میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ وہ داڑھی مونڈھ چکا، تو کہنے لگا:’’ اب ذرا آئینے میں اپنی صورت ملاحظہ فرمائیے اور میری ہنرمندی کی داد دیجئے۔‘‘ میں تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، کڑک کر کہا:’’ بھاڑ میں گئے تم اور تمہاری ہنرمندی۔‘‘ وہ بولا:’’کیا ہوا؟‘‘میں نے کہا:’’ چہ خوش! ابھی کچھ ہوا ہی نہیں‘ تم سے یہ جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور قتل و خوں کے قصے سنانے کو کس نے کہا تھا؟‘‘ وہ کہنے لگا:’’ اچھا! تو آپ میری باتیں سن کر پریشان ہوگئے، حالانکہ میری ہنرمندی اُسترے کی باڑھ میں نہیں‘ انہی باتوں میں ہے۔ آپ نے اتنا تو سنا ہوگا کہ خوف و دہشت کے عالم میں انساں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی دور از کار خیال نہیں‘ بلکہ اس میں بہت حد تک واقفیت ہے‘ بلکہ میرا تو تجربہ ہے کہ جب انسان پر ہیبت و دہشت کی کیفیت طاری ہوتی ہے‘ تو اس کے جسم کے تمام بالوں میں ایک تنائو سا پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک حجام کے نقطۂ نظر سے یہ تنائو بہت مفید ہے کیوں کہ اس حالت میں وہ باآسانی حجامت بناسکتا ہے۔ اگر میں آپ کو یہ قصے نہ سناتا، تو آپ کی داڑھی کیسے مونڈ سکتا اور مونڈ بھی لیتا، تو جلد جگہ جگہ سے چھل جاتی۔ ذرا آئینہ تو دیکھیے‘ کہیں کوئی ہلکی سی خراب بھی تو نہیں۔ درحقیقت آپ کو آج تک کسی تعلیم یافتہ اور روشن خیال حجام سے واسطہ نہیں پڑا، بہرحال اگرآپ کو میری باتوں سے کسی قدر تکلیف ہوئی ہے تو اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks