ملکہ وکٹوریہ جس دن قیصرِ ہند بنی تھیں، اس سے چند ہی روز قبل محمدعلی جناح پیدا ہوئے تھے۔ لندن میں تحصیل علم کے لیے وہ اسی سال وارد ہوئے جب مسٹر گلیڈسٹن کی لبرل پارٹی نے اپنی آخری بڑی فتح حاصل کی اور دادا بھائی نوروجی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ اور 1906ء میں، جب جناح نے ہندوستان میں اپنی سیاسی زندگی شروع کی، انگلستان میں لبرل پارٹی نے پھر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ سر ہنری کیمبیل بینرمین وزیراعظم منتخب ہوئے اور جان مارلے وزیرِ برائے امورِ ہند مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ چھ اینگلو انڈین سیاست دان، جو ہندوستان کے حالات سے بہ خوبی واقف تھے اور اس کی آزادی کے طرف دار تھے، پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 26فروری کو جان مارلے نے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہا’’ اس نئی پارلیمنٹ میں ہمیں کئی قابلِ ذکر تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک خوش آیند تبدیلی یہ ہے کہ آج سہ پہر ہم نے چھ تقریریں ایسے حضرات سے سنی ہیں جو ہندوستانی امور پر کامل عبور رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس قسم کے مباحثوں سے اس ملک کو بڑا نفع ہوگااور ہندوستان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘ ان چھ ممبروں نے ہندوستان کی بے چینی اوربنگال کی تقسیم سے متاثر ہوکر لمبی لمبی تقریریں کی تھیں ، جن میں انہوں نے ہندوستان کی مصیبتوں اور اس کی ضرورتوں پر روشنی ڈالی۔ہندوستانی امور پر اس قسم کی تقریریں پہلے کبھی دارالعوام میں نہیں سنی گئی تھیں۔ سمندر پار، بمبئی میں ’’ٹائمز آف انڈیا‘ کے پڑھنے والوں کو یہ تقریریں پڑھ کر بڑی تقویت ہوئی ہوگی اور یقین ہے کہ محمد علی جناح بھی اس کارروائی سے مطمئن ہوئے ہوں گے۔ وہ سر ہنری کاٹن (Henry Cotton)کے اس بیان سے بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ ’’ہندوستان میں حکومت کی کامیابی کا راز ہمدردری میں ہے۔‘‘ اور سر جان جارڈین (John Jardine)کے اس مطالبے سے بھی کہ ’’ہندوستان کے باشندوںکو حکومت میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں ملنا چاہئیں اور غیر ملکیوں کو صرف ان عہدوں پر رکھا جائے جہاں اُن کا رہنا نظم و نسق کے لیے ضروری ہو۔‘‘ جس زمانے میں برطانوی پارلیمنٹ میں یہ اہم مباحثہ ہوا‘ انہی دنوں ہندوستان میں جناح نے سیاست کے میدان میں پہلا قدم رکھا۔ 1906ء میں کانگریس کے اجلاس میں، جو کلکتے میں منعقد ہوا، جناح نے دادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکریٹری کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس سے 14برس پہلے ہی ویسٹ منسٹر میں انہوں نے اپنے سیاسی گرو کی وہ تقریر سنی تھی جس میں انہوں نے برطانیہ کے جذبۂ انصاف اور اس کی فراخ دلی کی تعریف کی تھی۔ اب کلکتے میں اُسی دادابھائی سے انہوں نے یہ الفاظ سنے:’’ گزشتہ چند صدیوں میں ہندستان کے لوگوں نے جو مصیبتیں اٹھائی ہیں‘ وہ آج تلافی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ہندوستان پر ڈیڑھ سو برس سے جو غیر فطری طرزِ حکومت مسلط ہے‘ وہ برطانیہ کے لوگ خود اپنے ملک میں ایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم مراعات کی بھیگ نہیں مانگتے‘ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس وقت میں اُن حقوق کے متعلق تفصیل سے بحث نہیں کرنا چاہتا جو برطانوی شہریوں کی حیثیت سے ہمیں حاصل ہیں۔ میں اپنی قوم کے سارے مطالبات صرف ایک لفظ میں سمیٹ کر بیان کر دوںگا اور یہ لفظ ہے خودمختاری یا سوراج۔‘‘ اس طرح ہندوستان کا شان دار پیر مرد، جو فنزبری کے انتخاب کے زمانے میں اتنا صلح جو اور اعتدال پسند تھا، آج اسی سال کی عمر میں آزادی کا مجاہد بن گیا تھا۔ اس کا دیا ہوا نعرہ ’’سوراج‘‘ اب کانگریس کے علم کی زینت تھا اور اُس علم کے زیرِسایہ چلنے والوں میں تیس سالہ محمد علی جناح بھی تھے۔ اُن میں ابھی سے مصلحینِ قوم کی بڑی بڑی خصوصیتیں پائی جاتی تھیں۔ کسی نے کہا ہے کہ مصلحوں کی بڑی خصوصیتیں یہ ہیں: بے پناہ جوش، اوالعزمی، دوسروں کو متاثر کرنے کی قوت، زمانے کی فضا اور وقت کے تقاضوں کا احساس اور متصوفانہ مزاج۔ جناح میں آخری صفت کے علاوہ سارے اوصاف تھے۔ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں جب انہوں نے یہ پہلا قدم دادا بھائی نوروجی کے نقشِ قدم پر رکھا تو اُن کا تمام ملک میں خیرمقدم ہوا۔ البتہ ان کی زبردست مداح مسز سروجنی نائڈو اس سے کچھ رنجیدہ ہوئیں۔ انہوں نے اس کا اظہار یوں کیا:’’ ہائے ہائے اس خوب رو لڑکے کو کیا ہوگیا۔ یہ سیاست کے بکھیڑے میں کیوں پڑگیا۔‘‘ (ہیکٹر بولائتھو کی کتاب ’’محمد علی جناح ؒ ‘‘سے اقتباس) ٭…٭…٭







Similar Threads: