اسد سلیم شیخ
جہاں تک مال روڈ پر چلنے والی سواری کا تعلق ہے تو ابتدا میں جب موٹر کا ریں نہیں ہوتی تھیں لوگ تانگے،بگھیوں یا وکٹوریا پر سفر کرتے تھے یا پھر سائیکل پر۔سائیکل ایک ایسی سواری تھی جسے چھوٹے بڑے سبھی استعمال کرتے تھے۔سب سے اچھی سائیکل اس زمانے میں ’’ریلے‘‘ کی تھی۔اس کے ساتھ ڈاینمولائٹ اور نمبروں والا تالا لگا ہوتا تھا اور اس زمانے میں یہ ساٹھ روپے میں مل جاتی تھی۔دوسرے مقبول برانڈ بی ایس اے،ہر کولیس، فلپس اور ایسٹرن سٹارکی قیمتیں چالیس سے پچاس روپے تک کی تھیں۔ ۱۹۳۵ء میں جاپان نے ہندوستانی مارکیٹ میں ایک سائیکل متعارف کرائی جس کی قیمت صرف انیس روپے تھی۔سائیکل پر ڈبل سواری کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان کیا جاتا اور انھیں عدالت کے رُوبرو پیش ہو کر دو روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔رات کو لیمپ کے بغیر سواری کرنے والے کو بھی جرمانہ کی سزا دی جاتی تھی۔اکثر اوقات پکڑے جانے والے طلبا غلط نام اور پتا بتا دیتے اور عدالت میں حاضر نہ ہوتے۔ شروع شروع میں روشنی کے لیے سائیکلوں کے ساتھ لیمپ لٹکائے جاتے،پھر ہینڈل کے ساتھ جہاں تیل کا لیمپ لگتا تھاوہیں یہ بیٹری لگائی جانے لگی۔ اس کے بعد ڈاینمو آئی۔مال روڈ پر چیئرنگ کراس میں ایک راڈ پر پٹی لگی ہوتی تھی اس پر لائٹنگ ٹائم لکھا ہوتا تھا۔ ہر سینما کے باہر لکھا ہوتا تھا لیمپ اورپمپ کے ہم ذمہ دار نہیں۔سائیکل سٹینڈ پر سائیکل کھڑی کرنے کا دو پیسہ کرایہ ہوتا تھا۔لوگ پھر لیمپ اور پمپ اُتار کر ہال میں ساتھ لے جاتے تھے۔مال روڈ کے ریگل سینما کے سائیکل سٹینڈ پر بھی یہی رواج تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ایک مہاجر عورت بائیسکل رکشا چلاتی تھی۔ وہ مال روڈ پر واحد بائیسکل رکشا تھا۔ صرف بچوں اور عورتوں کی سواریاں لیتی تھی۔ تیس کی دہائی کے وسط تک ان میں سے کئی پُر آسائش سواریاں ختم ہوگئیں اور ان کی جگہ موٹر کاروں نے لے لی۔موٹر رکھنا اب ایک فیشن بن گیا۔اندرون شہر رہنے والے متمول طبقہ نے تانگے اور وکٹوریا کا استعمال جاری رکھا۔انگریز حکام اور اشراف نے اب تیزی کے ساتھ موٹر گاڑیاں خریدنا شروع کر دیں۔شروع شروع میں تو گاڑیاں بہت کم ہوتی تھیں۔پانچ گاڑیاں تھیں جو مال روڈ پر اکثر نظر آتیں۔ان میں سے ایک گاڑی انسپکٹریس آف سکول کی ملکیت تھی جو انگریز تھی اور اسے یہ گاڑی ۱۹۲۸ء میں جہیز میں ملی تھی۔یہ مورس کمپنی کی تھی اور اس کے اُوپر کپڑا لگا ہوتا تھا۔ وہ خود ہی ڈرائیو کرتی تھی،ٹولنٹن مارکیٹ سودا لینے آتی تھی۔پیچھے اس کے کیرئیر بھی تھا۔خانساماں پگڑی والا بیٹھا ہوتا تھا۔ ۱۹۷۰ ء کے قریب اس کا ماڈل ٹائون میں انتقال ہوا۔دوسری گاڑی میونسپل کارپوریشن کے انجینئر کی تھی۔وہ انڈین تھا۔اس کی گاڑی بھی اسی طرح کی تھی۔ایک ڈاکٹر مراجکر کی گاڑی تھی جو سُرخ رنگ کی تھی۔اس کی چھت کینوس کی تھی۔مراجکرپارسی تھا اور میو ہسپتال میں بڑا زبردست سرجن تھا۔اس نے مہاراجا پٹیالہ کا وہاں جاکے کامیاب آپریشن کیا تھا۔جب مہاراجا صحت یاب ہوگیا تو اس نے اسے وہ گاڑی تحفہ میں دی تھی۔ورنہ وہ پہلے مال بائیسکل پر ہی آتا تھا۔ یہ ۱۹۳۰ء کے عرصے کی بات ہے جب اس کی گاڑی مال روڈ پر آیا کرتی تھی۔اس کی کار سپورٹس ٹائپ تھی۔ایک گاڑی میاں افتخارالدین کے پاس ہوتی تھی۔لعل دین قیصر ،عبدالعزیز مالواڑہ، میاں وحید اور چوہدری غلام رسول کے پاس بھی اپنی اپنی گاڑیاں ہوتی تھیں۔ایک سرکاری گاڑی کمشنر اور ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس بھی ہوتی تھی۔ڈپٹی کمشنر بعض اوقات سائیکل یا گھوڑے پر بھی جاتا تھا۔اس نے نِکر پہنی ہوتی تھی اور ساتھ کوئی عملہ نہیں ہوتا تھا۔موٹر کاروں کے بعد موٹر سائیکلیں آئیں لیکن صرف چند مہم پسند اور امیر نوجوانوں نے ہی اسے خریدا۔ سات آٹھ نوجوان لڑکوں کے گروپ ہرکولیس سائیکلوں پر بیٹھ کر شام کے وقت مال روڈ کی سیر کرنے آیا کرتے تھے۔ایک موٹر سائیکل اس کے ساتھ منسلک ہونے والی سائیڈ کار اینگلو انڈین جوڑوں میں بہت مقبول ہوئی۔پولیس سارجنٹ زیادہ تر اینگلو انڈین تھے،انھیں طاقتور انگلش موٹر سائیکلیں فراہم کی گئی تھیں۔وہ مال روڈ پر دوڑتے رہتے۔ان کا برانڈ نیم انڈین تھا۔وہ مقامی پولیس کے کاموں کی نگرانی کرتے تھے۔ ۱۹۴۵ء کے لگ بھگ مال روڈ پر اومنی بسیں بھی چلنی شروع ہوگئیں۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں لاہور اومنی بس والوں نے ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلائیں جو کئی برسوں تک لاہور کی شاہرائوں پر چلتی رہیں۔ لاہور میں سب سے پہلی ڈبل ڈیکر بس کی نمایش مال روڈ کے چیئرنگ کراس پر ۲ ستمبر ۱۹۵۱ء کو کی گئی تھی۔لطیفہ ہوگیاتین چار دوست تھے۔انھوں نے کہا،اوپر کی منزل پر بیٹھتے ہیں، وہاں ہوا بھی ہوگی،گئے تو ایک کہتا ہے،یار یہاں تو ڈرائیور ہی نہیں،یہ نہ ہوکہ نیچے سے بس نکل جائے اور ہم اوپر بیٹھے رہ جائیں۔اب تو مال روڈ پر ہر طرح کی موٹر کاریں ہی نظر آتی ہیں۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks