• Is se pehle part main aap ne shaheer , uske bete shehram ke beech ke ikhtilaafaat aur in ikhtilafaat par shehram ke dada dadi ki tashweesh ke bare main parha...
    link ye hai first part ka



    aaiye ab aage barhaate hain is Novel ko......!!!

    Part 1 ke aakhri peragraph..

    اپنے کام سے فارغ ہو کر ریسپشنسٹ نے ضروری کاغذات اکھٹے کیے. اور گلہ کھنکھارتے ہوئے شہرم کے قریب سے گزرتے وقت تھوڑے سے راستے کی گزارش کی. شہرم نے ریسپشنسٹ کو جگہ دی کہ وہ با آسانی گزر سکے.

    چلیں مریم ؟ وہیں سے ملحقہ کمرے میں آدھا دروازہ کھول کر ریسپشنسٹ نے آواز دی.
    شہرم اسکی خود اعتمادی دیکھ رہا تھا. اور یہاں وہاں بیٹھے لڑکے لڑکیوں سے اسکی بے نیازی بھی دیکھ رہا تھا. اور سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ، آخر اس عمر میں اس کو اس جاب کی کیا ضرورت ہے ؟

    مریم اور ریسپشنسٹ پیدل چلتے ہوئے اکیڈمی کے گیٹ کی طرف روانہ ہو گیئں.

    -------------------------------------------------------------------------------
    Now Next Part


    پاپا . شہرم کہاں ہے ، نظر نہیں آ رہا ہے مجھے. شہیر نے نصیر الدین صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا.
    بیٹا وہ اپنی اکیڈمی گیا ہے. آج اسکا پہلا دن تھا. کلاس مس نہیں کر سکتا تھا.

    پر آپ نے اسے بتایا نہیں کہ آج میں نے آنا ہے. میری آنکھیں ترس گئی ہیں اسکو دیکھنے کے لئے.

    تمہارا بیٹا بلکل تم پر گیا ہے.جب کوئی کام کا بیڑا اٹھا لے اس کام کو وقت پر ہی کر کے چھوڑتا ہے. آج اسکا اکیڈمی کا پہلا دن تھا. وہ کبھی مس نہیں کر سکتا اپنے خاص دن تعلیم کے حوالے سے. زہرا بیگم نے شہیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا.

    شہیر تم نے کھانا تو صحیح سے کھایا ہے نا ؟ آج تمھاری ماں نے خود تیار کیا ہے تمہارے لئے سارا کھانا. یہ میٹھا بھی لو.
    نہیں میں نے پیٹ بھر کر کھا لیا ہے ابھی بہت. میٹھے کی تو گنجائش ہی نہیں بچی. آپ ایسا کریں. سوئٹ دش رکھ دیں. جب شہرم آئے گا. ہم سب مل کر کھایئں گے.
    بیٹا پتا نہیں وہ کب تک آئے گا. تم تھکے ہوئے آئے ہو. آرام بھی کرنا ہوگا. اسکو آتے آتے رات نہ ہو جائے . نصیر الدین صاحب مختلف وجہیں بنانے لگے شہیر کا شہرم کے انتظار کو ٹالنے کے لئے.
    یہ کیا بات ہوئی پاپا .
    بھئی تمہارا ہی بیٹا ہے. تم جانو کہ یہ کیا بات ہوئی . نصیر الدین صاحب نے ڈائننگ چئیر کو پیچھے کی طرف سرکایا ، جس سے سب کو اندازہ ہو گیا کہ اب ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ جانا چاہئے.

    کھانے سے فارغ ہو کر ، شہیر لیونگ روم میں آ گیا. جہاں تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شاپ میں مشغول ہو گئے.
    مگر شہیر کی نظریں بار بار گھڑی کی طرف اٹھتی رہیں. جس سے نصیر الدین صاحب اور زہرا بیگم اچھے سے اندازہ لگا سکتے تھے کہ شہرم کا انتظار شہیر سے ملنے کی ٹرپ بڑھاتا جا رہا ہے.

    رات کے گیارہ ہو گئے ہیں شہیر . تم اب آرام کر لو. زہرا بیگم نے شہیر کی سرخ آنکھوں میں جھلکتی نیند دیکھ کر کہا.
    نہیں امی . میں ابھی کیسے سو سکتا ہوں. شہرم سے ملے بغیر .
    کل ملاقات ہو جائے گی تمہاری. دیکھ لینا وہ صبح سویرے شور مچاتا ہوا خود تمہارے کمرے میں ہوگا. نصیر الدین صاحب نے شہرم کو دلاسہ دیا .
    کل ..کیا مطلب ہے آپ کا پاپا.. یعنی میں سات سال بعد پاکستان آیا ہوں. اپنے بیٹے سے ملنے کے اشتیاق میں ہوں. آپ کو کیا لگتا ہے مجھے آرام سے نیند آ جائے گی اس سے ملے بغیر.

    شہیر کی بے تابی دیکھ کر نصیر الدین صاحب اور زہرا بیگم خاموش ہو گئے. اور تینوں لوگوں کی موجودگی میں بھی کمرے میں ایسے سکوت تار ہو گیا جیسے یہاں کوئی ہے ہی نہیں.
    در حقیقت تینوں ہی سوچ میں مشغول ہو گئے. تینوں اپنی اپنی سوچ اور چہرے کے تاثرات کو ایک دوسرے سے ایسے چھپا رہے تھے. جیسے اصل وجہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ آج سات سال کے بعد شہیر کی آمد پر بھی اسکا اکلوتا بیٹا اسکو ویلکم تک کہنے نہیں آیا. کمرے میں کچھ دیر اور خاموشی رہی .

    اس خاموشی کو شہیر نے خود توڑا .
    آپ لوگوں کو تو نیند آ رہی ہوگی. آپ دونوں جا کر سو جایئں.
    نہیں شہیر . تمہیں کیا لگتا ہے. ہمیں نیند آ جائے گی. آج کتنے سالوں بعد تم ہماری نظروں کے سامنے ہو.
    پر صرف شہرم نہیں ہے .شہیر نے دھیمی آواز میں کہا .
    شہیر نے پھر سے شہرم کا نام دوہرایا تو نصیر الدین صاحب نے نظریں جھکا لیں.

    پاپا آپ اور امی. میں آپ دونوں کو پریشان کرنے کے لئے پاکستان نہیں آیا ہوں. نا ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے کے میں پچھلی باتیں یاد کر کے آپ لوگوں سے ناراضگی ظاہر کرتا رہوں. یا ناراض ہو کر پاکستان سے چلا جاؤں. میں اب کہیں نہیں جانے والا.
    پچھلے کئی سال میں تنہائی میں جی چکا ہوں. جتنی سزا مجھے ملی ہے اس زندگی میں اپنی کوتاہیوں کی اتنی ہی سزا آپ لوگ بھی اپنی اپنی کوتاہیوں کی بھگت چکے ہیں. میرا اب کوئی ارادہ نہیں ہے آپ لوگوں پر اپنی اور آپ کی کوتاہیوں کا غصّہ اتارنے کا. اور یہ جو پچھلے تین گھنٹوں سے آپ لوگ مجھ سے شہرم کی بے رخی چھپا رہے ہیں.. یہ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے. میں جانتا ہوں. اس پر ان سالوں میں کیا گزری ہوگی . آپ سب تھے اسکے پاس. نہیں تھا کوئی اسکے پاس..تو اسکی ماں اور اسکا باپ . میں جانتا ہوں. اسکی اذیت کیسی ہوگی. ماں باپ کی طرف سے دی گئی خلش کیسی ہوگی ہے. یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا.

    میں منا لونگا. میں منا لونگا اپنے سارے روٹھوں کو.


    نصیر الدین نے تو جیسے سکون کا سانس لیا. مگر شہیر کے چہرے پر بدلاؤ دیکھ کر حیرت محسوس کرنے لگا . شکر ہے بیٹا . تمہیں نہیں معلوم ، تمھارے آنے سے پہلے سے اب تک مجھے جو ایک پریشانی تھی. وہ یہ ہی تھی کہ شہرم کا رویہ تمہارے لئے کیا نئی مشکل پیدا کرے گا ، اور پھر تم زندگی کو کس طرح لو گے. مگر تم نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا. کتنا سکون ملتا ہے، جب ہمیں اس ہی مشکل سے رہائی مل جاتی ہے، جس کی قید میں ہم برسوں جی رہے ہوتے ہیں.

    پر تمہارے لئے شہرم کو منانا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا شہیر. یہ کہتے ہوئے زہرا بیگم نے اپنی کنپٹیوں پر ایسے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا جیسے سر درد کی شکایت کر رہی ہوں .

    امی آپ مجھے تھکی ہوئی لگ رہی ہے. آپ جایئے .اپنے آپ کو اس مشکل سے آزاد کریں کہ کل میرا کیا روپ ہوگا. اب میں عمر کے اس حصے میں نہیں ہوں کہ سوچ سمجھ کر کوئی قدم نہ اٹھا سکون. امی میں نے آج تک صرف کھویا ہے. ان ہی لوگوں کو جو میرے سب سے قریب اور سب سے زیادہ اپنے تھے. اب میں اپنوں کو خود سے دور نہیں ہونے دونگا. بڑھاپا میری دہلیزپر دستک دے رہا ہے. کب تک میں دروازہ بند رکھ سکتا ہوں. بڑھاپا تو نا چاہ کر بھی آ جاتا ہے. یہ کوئی مہمان نہیں ہے کہ جسے میں دو سال اور روک لوں. میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے جنازے کو کاندھا دینے والا بھی کوئی نا ہو.

    چپ کرو شہیر . تم میرا دل چیر رہے ہو. الله نا کرے تمہیں کچھ ہو. ابھی ہم بیٹھے ہیں قبر کی دہلیز پر.

    چھوڑیں امی ان باتوں کو. آپ جا کر سو جایئں. پاپا آپ بھی چلے جایئں. میں تھوڑی دیر شہرم کا انتظار کرتا ہوں. آدھے گھنٹے تک وہ نہیں آیا تو میں بھی سو جاؤں گا.
    او کے بیٹا. تم نے ہمارے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے. اب کم از کم نیند بے خوفی اور سکون کی آئے
    گی. الله حافظ بیٹا. صبح ملاقات ہوگی .
    -




Similar Threads: