زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ، گلاب
بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب
پیٹ کے بھوگول میں الجھا ہوا ہے آدمی
اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب
اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے
بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب
ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول
سبھیتا رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب
چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے
ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب
Similar Threads:
Bookmarks