لہو پکارے گا آستیں کا
سمیع اللہ ملک، لندن
بھارت نے ممبئی حملوں میں ایک بے گناہ نوجوان اجمل قصاب کو ملوث کر کے اس پر ایک جھوٹا مقدمہ قائم کر کے اسے پھانسی پر لٹکا دیا اور بظاہر جیل ہی کے اندر اس کی تدفین کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ اندراج مقدمہ سے لیکر دورانِ سماعت کئی بار حقائق پکار پکار کر پوری دنیا کو بھارتی نیتاؤں کی دروغ بیانی سے آگاہ کرتے رہے اور اب اجمل قصاب کے آسودۂ خاک ہونے کے بعد مقدمہ لڑنے والے بھارتی سرکاری وکیل اجول نکم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اجمل قصاب کے بارے میں جھوٹ بولتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اجمل قصاب نے جیل میں مٹن بریانی کی خواہش کی۔ ایسا صرف شدت پسندوں کے حق میں بننے والی لوگوں کی جذباتی لہر کو ختم کرنے کیلیے کیا گیا یعنی ''لہو پکارے گا آستیں کا'' کے بقول سچ ایک بار پھر سچ ثابت ہو گیا۔
جے پور میں ہونے والی انسدادِ دہشتگردی کی کانفرنس کے بعد ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے اجول نکم کا کہنا تھا کہ ''اجمل قصاب نے کبھی مٹن بریانی کی خواہش نہیں کی اور نہ ہی جیل حکام کی طرف سے اسے مٹن بریانی دی گئی۔ جیل میں اجمل قصاب کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی اور اجمل قصاب اس بات سے واقف تھا'' ۔نکم نے مزید بتایا کہ ایک روز کمرہ عدالت میں اجمل قصاب نے سر جھکایا، دیکھا گیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں۔ میڈیا پر چند ساعت کے بعد یہ خبر نشر کر دی گئی کہ اجمل قصاب عدالت میں رونے لگا، موقع پر موجود ایک صاحبہ نے ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا کہ آج رکھشا بندھن ہے، یہ دن بہنوں کے بازوؤں پر بھائیوں کی طرف سے راکھی باندھنے کا دن ہے، لگتا ہے کہ اجمل قصاب کو اپنی بہنیں یاد آ گئی ہیں اور وہ رو پڑا ہے۔ بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس خیال کی تائید کی (جبکہ یہ بنیازادے نہیں جانتے تھے کہ اجمل قصاب جسے جس مذہب یعنی اسلام کا پیروکار ظاہر کیا جا رہا ہے اس میں راکھی باندھنے کا کوئی تصور نہیں)۔ کمرہ عدالت میں موجود اور باہر بھی بعض لوگ یہ کانا پھوسی کرتے سنے گئے، سوچنے کی بات ہے کہ یہ لڑکا دہشت گرد ہے بھی یا نہیں؟ کیا عوام کی آنکھوں میں دھول تو نہیں ڈالی جا رہی؟
اجمل قصاب دہشتگرد نہیں تھا، یہ حقیقت تو قیام مقدمہ کے فوراً بعد کھل کر سامنے آ چکی تھی۔ اجمل قصاب ممبئی میں ٢٠٠٨ء میں ہونے والے حملوں میں شمولیت کے الزام پر مشہور ہوا۔ اس کا تعلق پاکستان کے گاؤں فریدکوٹ سے بتایا گیا مگر جب میڈیا کی بھاری تعداد مختلف بھیس بدل کر فریدکوٹ پہنچی تو گاؤں کے تمام افراد نے ایسے کسی بھی شخص کو جاننے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اجمل قصاب کو مسلمان جہادی بتایا گیا مگر زخمی حالت میں اجمل قصاب کے انٹرویو میں جب یہ دکھایا گیا کہ وہ بھگوان سے معافی مانگ رہا ہے تو اس کا مسلمان ہونا مشکوک معلوم ہوا۔ جرح کے دوران بھی وہ یہ نہ بتا سکا کہ ''جہادی کیاہوتاہے''۔
اجمل قصاب پر ''را'' اور ''موساد'' کی مشترکہ کاوش سے مقدمہ قائم ہوا اور اس کا اجمالی خاکہ یوں بنتا ہے کہ نومبر ٢٠٠٣ء کو ممبئی میں دس شدت پسندوں نے حملہ کیا جس میں ١٦٦/ افراد ہلاک سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ١٠حملہ آوروں میں صرف اجمل قصاب کو ہی زندہ پکڑا جا سکا۔ اس کی گرفتاری ٢٧ نومبر ٢٠٠٨ ء کو عمل میں لائی گئی۔ مبینہ طور پر اس نے ٣٠ نومبر ٢٠٠٨ء کو پولیس کی حراست میں جرم کا اعتراف کیا۔١١جنوری ۲۰۰۹ میں ایم ایل تھلیانی کو مقدمے کا خصوصی جج مقرر کیا گیا جس نے آرتھر روڈ جیل کے اندر مقدمے کی سماعت کی، خصوصی عدالت نے انجلی واھمار کو اجمل کا وکیل مقرر کیا۔ ملزم پر فردِ جرم عائد کی گئی، اس میں عائد الزامات کو اس نے مسترد کر دیا۔ اس نے اپنے طبی معائنے کی درخواست کی مگر وہ بھی مسترد کر دی گئی اور جھوٹ پر مبنی مقدمے کی یکطرفہ کاروائی کے بعد اجمل قصاب کو ٢١ نومبر کو پھانسی دے دی گئی۔ دورانِ مقدمہ اس نے عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں اپنی سزا کے خلاف اپیلیں کیں جو منظور نہیں ہوئیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل مسلسل دروغ بیانی سے کام لیتا رہا۔ ١٩نومبر ٢٠١١ء کو اس نے عدالت کو بتایا کہ ٢٦/١١ کے حملہ آور (بشمول اجمل قصاب) بھارت میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے۔ ایک موقع پر اس کا یہ کہنا تھا کہ ماتحت عدالت نے اجمل قصاب کا اقبالی بیان قبول کرنے کی غلطی کی تھی اور وہ ایک جھوٹا آدمی ہے۔ اجمل قصاب کے وکیل امیل سولیر نے وکیلِ سرکار کے بیان پر جرح میں کہا کہ اجمل پر جنگ چھیڑنے کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ کہا گیا ہے کہ اجمل پاکستان سے کشتی کے ذریعے آیا جبکہ جس کشتی کا ذکر کیا گیا اس میں دس آدمی سما ہی نہیں سکتے۔ پولیس نے اسے مقدمے میں پھنسانے کے لیے جھوٹی کہانی گھڑی ہے۔ وکیل صفائی نے یہ دلیل دی کہ ثبوت دبا دیے گئے ہیں۔ صرف چند سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئیں جو بالکل غیر متعلقہ اور غلط ہیں۔ اجمل نے ٧ دسمبر٢٠١٠ء کو پولیس افسر ہیمنت کرکرے اور دیگر پولیس حکام کے قتل سے انکار کیا۔ اس کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جسم میں پائی گئی گولیاں اجمل قصاب سے برآمدہ بندوق سے نہیں ملتی ہیں۔
بھارتی وکیل اجول نکم نے اپنے تازہ بیانوں کا اعتراف کرتے ہوئے جس بھارتی میڈیا پر الزام عائد کیا کہ اس نے میرے جھوٹ (بریانی کھانے کی خواہش) کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا تھا اب وہی میڈیا اجمل قصاب کی سزا کو مشکوک اور باطل قرار دینے میں شدّومد کے ساتھ مصروف ہو گیا ہے۔بھارتی حکمران، وکلاء اور میڈیا کے کردار و عمل کے انکشافات ہوتے رہیں گے اور بھارت مزید ننگا ہوتا رہے گا مگر اس وقت زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ بھارت میں جو مذکورہ مقدمہ قائم ہوا اس میں حافظ سعید، ذکی الرحمان لکھوی سمیت دیگر افراد کے خلاف بھی مقدمہ قائم کیا گیا اور ان دونوں پاکستانی حضرات کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے گئے۔ اب ان کے خلاف پاکستان میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے جس کا ذکر زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
٢٦ نومبر ٢٠٠٨ء میں ممبئی حملوں کے فوراً بعد حکومتِ پاکستان نے اس کیس میں اقوامِ متحدہ کی پاس کردہ جبری قرارداد کی روشنی میں لشکرِ طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پاکستان کے قوانین کے تحت مقدمات قائم کیے مگر ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی نے پاکستان کی عدلیہ کو بار بار ان کی رہائی پر مجبور کر دیا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ممبئی دھماکوں کے لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر لشکرِ طیبہ اور اس کی قیادت کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ جماعت الدعوہ بھی ''دہشتگرد'' تنظیم قرار پائی اور مطالبہ کیا گیا کہ اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ کونسل کا کہنا تھا جماعت الدعوہ دراصل لشکرِ طیّبہ کا دوسرا نام ہے اس لیے پابندیوں کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے۔ اس دوران امریکی دباؤ پر لشکرِ طیّبہ کے امیر ذکی الرحمان سمیت اس تنظیم کی قیادت اور جماعت الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ سعید کو حکومت نے گرفتار کر کے جیل بھجوایا اور ان سب پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا گیا۔جماعت الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید کو پاکستان کی عدالتوں نے ممبئی کیس سے باعزت بری قرار دیتے ہوئے پہلے ہی رہا کر دیا جبکہ گزشتہ سات برسوں سے ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے ساتھی ہنوز نظربند ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدّہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین سے متعلقہ اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی کوئی فکر نہیں کہ جہاں نصف صدی سے زائد عرصے سے بے دریغ لہو بہہ رہا ہے۔ملت اسلامیہ کشمیر اور ملت اسلامیہ فلسطین کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ دونوں مقامات پر بھارت اور اسرائیل کی افواج کے ہاتھوں بے دریغ قتلِ عام میں اب تک لاکھوں افراد کو شہید کر دیا گیا مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نظروں میں ان لاکھوں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، اسی لیے اس کی طرف کوئی توجہ اور التفات نہیں۔ اس کے علی الرغم ٢٠٠٨ ء کو مشکوک حالات میں ممبئی دھماکوں اور ان دھماکوں کے نتیجے میں ١٦٠/ افراد کی ہلاکت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ڈنڈا چلایا اور اس وقت کی حکومت پاکستان پر اس قدر دباؤ بڑھایا کہ اسے مجبوراً اپنے شہریوں ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں نظربند کر دیا۔ ان کے خلاف کیس دائر کیا گیا لیکن کذب بیانی پر مبنی کمزور کیس ہونے اور ممبئی دھماکوں کے حوالے سے عدم ثبوت کے باعث عدالتیں ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے احکامات جاری کرتی رہیں۔
پاکستان کی عدلیہ سے صادر ہونے والے رہائی کے احکامات پر ہر بار بھارت سیخ پا ہوتا رہا۔ ساتھ ساتھ امریکا ان کی رہائی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر حائل ہوتا رہا ہے۔ یہ امریکی دباؤ ہی کا نتیجہ ہے کہ ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے ساتھیوں کو گزشتہ سات برسوں سے بغیر کسی شواہد و ثبوت مسلسل نظربندی کا سامنا ہے۔ ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف ممبئی حملوں کے کذب بیانی پر مبنی بے بنیاد کیس میں عدم ثبوت پر عدالتی احکامات کی یہ کڑی تھی کہ ١٢ مارچ (جمعہ) کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا اور حکومت کی جانب سے جاری نظربندی کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔
پندرہ صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی کے نوٹیفکیشن کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اوباما کو فون کیا اور انہیں رام کہانی سنا کر مدد طلب کی، دوسری طرف دہلی میں تعینات پاکستانی سفیر عبدالباسط کو دفترِ خارجہ طلب کر کے ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی کے متعلق ہائی کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ اس دوران۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت کے ردّعمل کے ساتھ ہی امریکا کا یہ سخت ردّعمل سامنے آیا کہ لکھوی کو یا تو بھارت کے حوالے کیا جائے یا پھر عالمی عدالت میں ان کے خلاف ٹرائل کیا جائے۔
امریکا کے اس طرح کے سخت ترین ردّعمل سامنے آنے پر حکومتِ پنجاب کے حکم پر ١٣ فروری کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی میں ایک ماہ کی توسیع کر دی تھی۔ یہ چوتھی بار ہوا ہے کہ جب حکومت کی طرف سے ذکی الرحمان لکھوی کی نظربندی میں توسیع کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھارت کے ردّعمل پر پاکستان نے بھارت کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پاکستان عدالتی عمل پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بھارت ذکی الرحمان لکھوی کا معاملہ بے جا طور پر نہ اچھالے۔ دفترِ خارجہ پاکستان کی ترجمان تسلیم اسلم کا کہنا تھا کہ بھارت نے سمجھوتا ایکسپریس کے ماسٹر مائنڈ کو کیوں ضمانت دی؟ جس پر پاکستان نے سوالات اٹھائے لیکن بھارت نے پاکستان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کے عدم تعاون کے باعث ممبئی حملہ کیس ٹرائل نے طول پکڑا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کالعدم قرار دیتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔ بھارت کو تو ایک لمحے کے لیے اپنے دائرہ فکر سے نکال ہی دیں کیونکہ وہاں تو انصاف ناپید ہے اور وہاں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے کہ اس امریکا بہادر کو کیا ہو گیا جو قانون کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی میں بڑے سوانگ رچاتا رہتا ہے۔وہ عدلیہ کے فیصلوں پر اس حد تک یقین رکھتا ہے کہ پاکستان اور اسلام کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی جیوری کی طرف سے ٨٦ سال قید سنائے جانے کو عین انصاف قرار دے کر اس پر عملدرآمد بھی کر دیا۔ ایسے میں وہ پاکستان کی عدالت کے فیصلے کو مسترد کیوں کر رہا ہے۔
عدالتی حکم پر ذکی الرحمان کی رہائی کا حکم جاری ہونے پر امریکا کے سخت لہجے میں دیے گئے بیان سے اس امر کا بلیغ اشارہ مل رہا ہے کہ وہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلیے پاکستان کی خود مختار عدلیہ کو رگیدنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اگرچہ پرویز مشرف ہی کے دور میں امریکیوں نے پاکستان کے حوالے سے تضحیک آمیز رویہ اپنایا ہوا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس رویہ میں کمی آنے کی بجائے اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ بھارت کے شانہ بشانہ چل کر اس نے لشکرِ طیّبہ اور جماعت دعوہ کے خلاف عملی طور پر باضابطہ فریق بننے کا طرزِ عمل اپنا لیا ہے۔ امریکا کا یہ معاندانہ رویہ لشکر طیبہ کے امیر ذکی الرحمان کے خلاف امریکی طرزِ عمل ٢٦ نومبر ٢٠٠٨ء کو ممبئی دھماکوں کے بعد سامنے آیا۔ وائٹ ہاؤس کے بزرجمہروں نے پاکستان کو قائل کرنے کی مقدور بھر کوششیں کیں کہ وہ لشکر طیبہ اور جماعت دعوہ کے خلاف بھرپور کاروائی کرے جس کے بعد آزادکشمیر میں بھی ٦٤جماعتوں پر نہ صرف پابندی عائد کر دی گئی ہے بلکہ ان سے ہمدردی اور تعاون کرنے والوں کو بھی ایک انتہائی سخت نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے لیکن یاد رہے کہ اب آزاد عدلیہ کے بعد پاکستان کی کوئی بھی حکومت کسی طور پر بھی امریکا و بھارت کی خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتی جلد یا بدیر حکومت کو عدلیہ کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ یقیناً سابقہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا عدلیہ کے حکم عدولی کا حشر صاحبِ اقتدار کے سامنے ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks