فائزہ نذیر احمد
زندگی محض عیش عشرت ،اور موج مستی کا نہیں بلکہ صبر استقامت ،خودداری اور عفو و در گزر کا نام ہے۔سہولیات زندگی کے سہارے زندگی کے سفر کوطے کرنا کوئی کمال نہیں ، لیکن بغیر کسی سہارے اور آسرے کے اس کٹھن سفر کو طے کرنا کارنامہ اور کمال ہے۔برداشت کے مادے سے ہر قسم کے بْرے حالات کا مقابلہ استقامت ،صبر ،ایمانداری اور خودداری کرنے والے ہی معاشرے کے اصل ہیرو ہوتے ہیں۔آیئے آپ کو ایک ایسے ہی کردار سے ملواتے ہیں۔ وہ دس برس کا بچہ لائبریا کی گلیوں میں گھومتا پھرتا موت کا شکار ہوگیا۔ اس کا نام شاہ ایکسکوتھا۔ اتنی چھوٹی عمر میں ایبولا کے خطرناک وائرس نے اسے اپنا نشانہ بنایا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شاہ ایکسکو منرویا کے ساحل پر بلا مقصد گھومتا رہتا تھا۔ سیاحوں کے کھانے کے بچے کھچے ٹکڑے اٹھا کر کھا لیتا اور سمندر کنارے لگے نلکے سے پانی پی لیتا۔ شاہ ایکسکوکی کہانی دنیا کے سامنے لانے کا سہرا فوٹوگرافر ڈیوڈ گیلکے کے سر بندھتا ہے جو لائبیریا میں ایبولا سے ہونے والی جانی نقصان کی کوریج کیلئے امریکہ سے یہاں آئے تھے۔ ڈیوڈ گیلکے بتاتے ہیں کہ شاہ کی آنکھوں میں موت کے سائے نظر آتے۔ وہ کچھ بولتا نہیں تھا لیکن ہمہ وقت بخار میں تپ رہا ہوتا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق اس کی ماں اور بھائی چند روز قبل اس وائرس کا نشانہ بنے اور موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اتنی بڑی زمین پر شاہ ایکسکوکا کوئی نہ تھا۔ وہ بے حس انسانوںکے ایک ایسے گروہ میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا جہاں کوئی اسے چھونے کو تیار نہ تھا۔ کوئی اسے گھر لے جانے کیلئے حامی نہیں بھرتا تھا بلکہ اُس کو چھونے کا مطلب ڈیتھ وارنٹ تصور کیا جاتا تھا۔وہ سارا دن روٹی کے ایک ٹکڑے کی تلاش کے بعد گلی میں پڑے گتے کے ڈبے میںگھس کر سو جاتا۔ ڈیوڈ کی کوششوں سے شاہ ایکسکوکو ایبولا سنٹر منتقل کیا گیا جہاں اسے ایک ہسپتال میں داخل کرلیا گیا لیکن موت کا فرشتہ اس کی سانسیںگن چکا تھا اور دوسرے ہی روز یہ ننھا فرشتہ چپکے سے بستر سے اترا اور گتے کے ڈبے میں جا لیٹا۔کچھ دیر بعد آخری ہچکی لی اور زندگی کی جنگ ہار گیا۔اُس دن دنیا بھرکے میڈیا نے شاہ ایکسکو کی موت کی بھر پور کوریج دی۔اور اس کے ساتھ ہی مہذب دنیا کے تمام وسائل کا رُخ لائبیریا کی طرف مڑ گیا۔ سچ ہے کہ جس نے دنیا میں آنا ہے اس نے واپس ہی جانا ہے لیکن بعض امراض اس قدر دردناک ہوتے ہیں کہ بلااختیار آنسوچھلک پڑتے ہیں۔ شاہ ایکسکوکو بھی ایک دن مرنا ہی تھا لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ وہ زندگی کا سفر پورا کرگیا لیکن اس کیلئے بھری دنیامحبت کا کوئی احساس نہ تھا۔ کیا شاہ ایکسکوکو اپنی موت کی خبر تھی ؟کیا اس کی آخری رسومات ادا کرنیوالا بھی کوئی تھا؟وہ خالی نظروں سے کیوں گھومتا پھرتا رہتا تھا؟ کیا کسی نے اس کی موت پر ایک بھی آنسو بہایا ہو گا؟ ایک معصوم بچہ اس طرح موت کا شکار ہوگیا، یہ امر بہت تکلیف دہ ہے۔اس سے بھی ذیادہ دکھ کی بات یہ ہوگی کہ ہم کتنے مزید شاہ ایکسکو کو یونہی مرنے کے لیے تنہا چھوڑ کر بے حسی کی چادر اوڑہ کر آنکھیں موند لیتے رہیں گے؟ ایبولا وائرس کے خوفناک تصور اور تباہی کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا کی بریکنگ نیوز میں ہیں۔ ایک ہی وار میں اس ظالم بیماری نے چوبیس سو لوگوں کی جانیں لے لیں جن میں اکثریت افریقی ممالک کے باشندوں کی تھیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ ممالک میں لائبیریا، گنی، نائیجیریا اور سیریالیو نے ممالک شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیںجن کے باشندے غربت کے لحاظ سے پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان ممالک کی آمدن کا کوئی قدرتی ذریعہ نہیں ہے۔ یہاں بھوک ننگ ،افلاس اور تنگدستی نے مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ایسے میںوہ بیماریاں بھی یہاںکارخ کرتی ہیں جن کا علاج ممکن نہیں۔ یہاں ایک بیماری ایبولا وائرس سے ہونے والا بخار ہے جو موت سے کم سزا دیتا ہی نہیں۔شاہ ایکسکو جس وائرس کی وجہ سے موت کی وادی میں اترا وہ ایبولا وائرس ہے جس نے دنیا میںخوف پھیلا رکھا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک مذکورہ وائرس نے سات ہزار سے زائد افراد کو اپنا شکار بنایا ہے ،جس میں سے 34 سو سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بڑی اکثریت مغربی افریقہ کے باسیوں کی ہے، تاہم امریکا میں بھی ایک موت رپورٹ ہوئی ہے۔درحقیقت مغربی افریقہ سے باہر اس کے واقعات بہت کم سامنے آئے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ خشک آب و ہوا والے علاقوں میں یہ وائرس چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے جنوبی ایشیا میں اس کے پھیلنے کا امکان بہت کم ہے تاہم سیال جیسے خون میں یہ کئی روز تک زندہ رہ سکتا ہے اور مریض کے بہت زیادہ قریب رہنے وا لے افراد میں منتقل ہوکر آبادیوں میں پھیل سکتا ہے۔ ایبولا وائرس ایک ایسی خطرناک ترین بیماری ہے جسے ’’ایبولا ہیمرجک فیور‘‘بھی کہا جاتا تھا۔ ایبولا بخارمیں مبتلا 90 فیصد افراد کی ہلاکت کا خطرہ رہتا ہے۔ اس بیماری میں بھی ویسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو ڈینگی بخار میںپائی جاتی ہیں۔ ڈینگی بخار کی طرح ابھی تک ایبولا کیلئے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔ ایبولا انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی گھٹ جاتی ہے۔مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، درحقیقت اسے دوران خون کا بخار بھی کہا جاتا ہے اور جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ مگر صرف خون نہیں بلکہ پسینے، تھوک اور پیشاب وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ چمگاڈروں کے ذریعے یہ افریقہ میں پہلے جانوروں اور ان سے لوگوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔ ایبولا کے شکار افراد کی بڑی تعداد ایک ہفتے میں ہی دنیا سے چل بستے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کا کوئی موثر علاج دستیاب نہیں تاہم بیمار افراد کو ہلکا میٹھا یا کھارا پانی پلاکر یا ایسے ہی سیال مشروبات کے ذریعے کسی حد تک بہتری کی جانب لے جایا جاسکتا ہے۔یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے سوڈان میں ظاہر ہوا تھا اور 2013 تک اس کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم گذشتہ برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے تھے۔ ایبولا چار طریقوں سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے: ٭:پہلا مریض سے قریبی تعلق اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ ٭:دوسرا تھوک، خون، ماں کے دودھ، پیشاب، پسینے ، فضلے اور مادہ تولید سے یہ ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ٭:مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔ ٭:ایبولا کے شکار جانوروں کا گوشت کھانے یا ان کے بہت زیادہ رہنا۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks