جیسے یکدم کوئی فیشن چل نکلتا ہے.ہر نوجوان ایم بی اے کرنے لگتا ہے. ہر لڑکی ڈھیلے ڈھالے پاجامے پہننے لگتی ہے . ہر بوڑھا دوسری شادی کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے، بالکل ایسے ہی ان دنوں ٹیلی ویژن میزبان بن جانے کا رواج نہایت پاپولر ہو گیا ہے. ایک صاحب کا کہنا ہے کہ سوائے میرے سبزی والے اللہ رکھا کے اور دودھ والے دین پناہ کے ہر شخص ٹیلی ویژن پر میزبانی کے فرائض سرانجام دینے لگا ہے.
کوئی دن جاتا ہے جب اللہ رکھا اور دین پناہ بھی کسی کُکنگ شو کی میزبانی کر رہے ہوں گے.چونکہ میڈیا پر میزبانی سے میرا بھی جائز تعلق رہا ہے اس لئے آئے دن میزبان بننے کے شائق نوجوان اور لڑکیاں مجھ سے رابطہ کرتے رہتے ہیں تا کہ اس سلسلے میں ان کی کچھ رہنمائی کروں اور انہیں میزبانی کے رموز اور خفیہ نسخے بتا کر ان کا مستقبل درخشاں کردوں
پچھلے زمانوں میں ٹیلی ویژن میزبان ایک ہی قسم کا ہوا کرتا تھا. خالص اردو اور پنجابی میں بات کرتا تھا، انگریزی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتا تھا کہ اس کی انگریزی صرف گڈبائے اور بائے بائے تک محدود ہوتی تھی. موقع ہو نہ ہو اپنی تقریر دل پذیر میں شعر ٹانکتا جاتا تھا. مہمانوں کی عزت کرتا تھا اور پورے پروگرام کے دوران وہ ایک ناراض ریچھ کی مانند نظر آتا تھا قطعی طور پر مسکراتا نہ تھا اور ایک افلاطون کی مانند باتیں کرتا تھا. یہی میزبان مختلف شوز کی میزبانی کرتا تھا.
سائنس، موسیقی ، زراعت وغیرہ کے شوز کے علاوہ میلہ مویشیاں کی میزبانی بھی سہولت سے کرلیتا تھا.لیکن موجودہ دور میں صورت حال یکسر بدل چکی ہے. ان دنوں ٹیلی ویژن میزبانوں کی متعدد اقسام رائج ہیں. ان میں سرفہرست تو حالات حاضرہ کے پروگراموں کے میزبان ہیں. انہیں آپ سیاسی میزبان کہہ سکتے ہیں.
اس نوعیت کی میزبانی کا سنہری اصول یہ ہے کہ آپ برسراقتدار پارٹی اور اپوزیشن کی پارٹیوں کے ارکان کو اپنے سامنے بٹھالیں اور ان سے صرف پوچھیں کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں.
آپ کا سوال ابھی ختم نہیں ہوگا کہ وہ مشترکہ طور پر غُل مچانے لگیں گے. اپنی اپنی پارٹیوں کے حق میں دلائل کی بوچھاڑ کر دیں گے. اور جب آپ انہیں صبر کی تلقین کریں گے تو وہ مزید سیخ پا ہو جائیں گے کہ میزبان صاحب آپ ہمیں اپنا نکتہ نظر بیان کرنے دیں.
یہ وہ لمحہ ہے جب آپ نے اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ جانا ہے، آپ نے چپ بیٹھے رہنا ہے، صرف کبھی کبھار اپنی عینک درست کرنی ہے اور ہاں ایک بیوقوفانہ سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے رکھنا ہے. آپ کے مہمان پورے پروگرام میں شور مچاتے رہیں گے، ایک دوسرے کے لتے لیتے رہیں گے اور اگر ان میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں گے. اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا پروگرام مزید ہنگامہ خیز ہو تو پروگرام کے آغاز سے پیشتر مہمانوں کی میز پر اور ایک دو گلدان بھی رکھ دیں. تا کہ جب وہ طیش میں آجائیں تو جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے یہ گلدان ایک دوسرے کی جانب اچھالتے جائیں
جب پروگرام اختتام کو پہنچے تو آپ نے نہایت دکھ بھری شکل بنا کر کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے محب الوطنی اور قومی سلامتی کے حوالے سے ایک رقت آمیز تقریر کرنی ہے اور کہنا ہے کہ خواتین و حضرات کون کہتا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم نہیں ہیں. اپنے وطن کیلئے قربانی نہیں دے سکتے. آج کے پروگرام میں ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے لیڈران کتنے پرجوش اور جذباتی ہیں. یہ اپنے وطن کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں. فی الحال مجھے اجازت دیجئے..
ٹیلی ویژن میزبانی کے رہنما اصول
(مستنصر حسین تارڑ
Similar Threads:
Bookmarks