نامرادی کا دلِ زار کو شکوا ہے عبث
اور کچھ اس کے سوا اُن سے تمنّا ہے عبث
واقفِ رحم نہیں اس شہِ خوباں کی نظر
عاشقی مملکتِ حُسن میں رُسوا ہے عبث
خُو سے اُس محوِ تغافل کے جو آگاہ نہیں
آرزو وعدۂ جاناں پہ شکیبا ہے عبث
حالِ دل اُن سے نہ پوشیدہ رہا ہے، نہ رہے
اب تو اس رازِ نمودار کا اخفا ہے عبث
ہجرِ ساقی میں بھلا کس کو خوش آئے گی شراب
ہم نشینو! طلبِ ساغر و مینا ہے عبث
مست غفلت ہے وہ ظالم جو نہیں بے خودِ عشق
ہوشیاری کا ترے دور میں دعوا ہے عبث
ہم کو اس شوخ سے اُمیدِ کرم ہے، لیکن
یاس کہتی ہے کہ حسرتؔ یہ تمنّا ہے عبث
Similar Threads:
Bookmarks