رنج و غم ٹوٹے ہیں دل پر اس قدر پردیس میں
جا بجا بکھرا ہوا ہوں ٹوٹ کر پردیس میں
اپنی مرضی کی اُڑانیں بھر نہیں سکتے پرند
کٹ گیے ہوں جیسے ان کے بال و پر پردیس میں
سونے چاندی کے ثمر پیڑوں پہ تو لگتے نہیں
ہر طرف بکھرے نہیں ہیں مال و زر پردیس میں
مجھ سے ہے جانِ غزل کا یہ تقاضا ہر گھڑی
تم غزل سے ہو نہ جانا بے خبر پردیس میں
دیس ہے پردیس کی مانند اُن کے واسطے
جن کو رہنا ہے گوارا عمر بھر پردیس میں
وقت اور حالات نے راغبؔ کیا مجبور یوں
مجھ کو رہنا ہی پڑا تھک ہار کر پردیس میں
افتخار راغبؔ
Similar Threads:
Bookmarks