فروری 1847ء کا ایک سرد دن تھا۔ سیم ایڈیسن اپنے گھر کی بیٹھک میں آہنی آتش دان میں جلتے ہوئے کوئلوں کے سامنے ٹہل رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے قریب گیا اور نہر کی طرف دیکھنے لگا۔ جس دریا میں ہر وقت کشتیاں چلتی رہتی تھیں اس پر برف کی موٹی اور ہموارتہہ جمی ہوئی تھی اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کشتی کو کنارے سے لگانے کے آبی راستے پر بھی برف جم چکی تھی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ آہٹ سن کر سیم ایڈیسن پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ ایک ڈاکٹر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ ’’مبارک ہو جناب ! آپ ایک پیارے پیارے بچّہ کے باپ بن گئے ۔‘‘ ’’شکریہ ڈاکٹر صاحب ! نئے وطن میں ہمارا یہ پہلا بچّہ ہے۔ میں جا کر اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر کافی پی کر گلی میں چلا گیا جس کے کنارے کھردری اور دندانے دار پتیوں والے بے رونق درخت لگے ہوئے تھے۔ سیم اپنی بیوی کی خواب گاہ میں داخل ہوا جو مکان کی پہلی منزل پر تھی۔ اس کی بیوی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور بہت آہستہ سے بولی:’’آ کر اپنا بیٹا دیکھ لو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کمبل کا سرا ہٹا دیا اور بچّے کا ننھا سا چہرہ نظر آنے لگا۔ ’’اس کی ناک ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایڈیسن خاندان کا بچّہ ہے۔‘‘ سیم نے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘اس کی بیوی نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے کہا۔’’اس کی نیلگوں بھوری آنکھوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے مگر اس کے بال میری طرح بھورے نہیں ہیں۔ اس کا نام کیا رکھا جائے؟‘‘ ’’اس کے لیے دو ناموں کی ضرورت ہوگی۔ ایک تم سوچ لو دوسرا میں‘‘ نینسی ایڈیسن ایک لمحے تک سوچنے کے بعد بولی:’’ کیپٹن الوابریڈلے ہمارے سب سے اچھے دوست ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے سے دور تھے تو وہی ہمارے خط لاتے لے جاتے تھے اور انہی کے جہاز پر میں بچّوں کو لے کر یہاں آئی تھی۔ میں اپنے منے کا نام کیپٹن بریڈلے کے نام پر الوا رکھوں گی۔‘‘ ’’یہ سن کر وہ بہت خوش ہوں گے۔‘‘ سیم بولا۔ ’’اس کا نام ٹامس بہت موزوں ہو گا۔ میرے خاندان میں جان اور سیموئل اتنے ہو چکے ہیں کہ میں ان ناموں سے اکتا گیا ہوں۔‘‘ ’’الوا ٹامس ایڈیسن‘‘نینسی نے آہستہ یہ نام دہرایا۔’’سیم ! اس کے نام کے پہلے حروف اے ۔ ٹی۔ای (A-T-E) ہوں گے۔ حروف کا یہ مجموعہ مجھے اچھا نہیں لگا۔ یہ نام ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ سیم نے قہقہہ لگایا ’’اچھا یوں سہی اس کی ترتیب بدل دو۔ ہم اس کا نام ٹامس الوا ایڈیسن رکھ دیں گے۔‘‘ بچّہ کی ماں نے کہا: ’’ہاں یہ نام زیادہ اچھا ہے۔ ہم اسے الوا کہہ کر پکاریں گے۔ خاندانی کتاب لائو اور اس میں بچّے کا نام اور پیدائش کی تاریخ لکھ دو۔‘‘ سیم بیٹھک سے کتاب لے آیا اور آخر کے سادے صفحات نکال کر اس نے ایک صفحہ پر جما کر لکھ دیا ’’ٹامس الوا ایڈیسن۔ پیدائش 11فروری 1847ء ۔‘‘ نو عمر الوا جسے پیار میں لوگوں نے ال کہنا شروع کر دیا تھا تیزی سے عمر کی منزلیں طے کرنے لگا۔ بچپن ہی سے اس میں تلاش اور تجسّس کا مادہ موجود تھا۔ جیسے ہی وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا اس نے اپنے ارد گرد کی دنیا کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب وہ الفاظ کو ملا کر جملے بنانے لگا تو اس کی باتوں کا ہر دوسرا فقرہ ’’کیا‘‘ ’’کیوں‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ال کی بڑی بہن ٹینی اس وقت سن بلوغ کو پہنچ گئی تھی اور اس کا ایک دوست اس سے ملاقات کے لیے قریب قریب ہر روز آیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتی تھی۔ مسز ایڈیسن کا تمام وقت گھر کے انتطام اور دیکھ بھال میں صرف ہو جاتا تھا۔ خوش قسمتی سے میلان میں نینسی ایڈیسن کی تیرہ سالہ بھانجی بھی رہتی تھی اور اس کا نام بھی اپنی خالہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسی پر اپنے خالہ زاد بھائی ال کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ پڑا۔ اسی کو ال کے کبھی نہ ختم ہونے والے ایسے سوالات کا جواب دینا پڑتا تھا۔ اس نے ایک باراسے غضب ناک چوزوں سے بچایا تھا جن کے بہت سے پر اس نے صرف یہ معلوم کرنے کے لیے نوچ لیے تھے کہ وہ کس طرح اپنی جگہ لگے رہتے ہیں اور اسی نے ایک مرتبہ چند سہمی ہوئی بطخوں کو ال کے پنجوں سے چھڑایا تھا جس نے ان کے ہتھیلی نما پیر غور سے دیکھنے کے لیے انہیں پکڑ رکھا تھا۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
Bookmarks