خوابوں کے تعاقب پر مجبور کرنے والا ناول

سہیل تاجاربع عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی کائنات کی ہر شے میں ظہور پذیر ہیں۔ ان عناصر کی پلٹ پھیر سے مادے کی خصویات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔زمانہ قدیم میں خیال کیا جاتا تھا کہ اگر مادے کی بنیادی اکائی میں تبدیلی کر دی جائے تو دھات کو سونا بنا لینا ممکن ہے۔ روایتی کہانیاں بیان کرتی ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہو گزرے ہیں جو کیمیا گری کے اس نسخے سے واقف تھے۔ پائیلو کوہلو کا ناول الکیمسٹ ایسا ہی کیمیائی نسخہ ہے جو قارئین کو اپنے خوابوں کے تعاقب میں نکلنے کی ترغیب دیتا ہے ۔یہ ناول پہلی بار 1988ء میں شائع ہوا اور سال 2008 ء تک اس کی65ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔الکیمسٹ کااب تک 56 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔قارئین میں یہ ناول اس لیے مقبول ہوا کیونکہ قاری خود کو کردار کا حصہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ انسانی جبلت ہے کہ ہرفردخواب دیکھتا ہے ، کچھ خواب پورے ہوتے ہیں اور بعض کی تکمیل میں خوف حائل ہو جاتا ہے ۔ پائیلو کہتے ہیں کہ انسان جب کوئی مستحکم ارادہ کرتا ہے تو کائنات کی تمام طاقتیں یکجا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اِس ارادے کی تکمیل میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ناول کی کہانی اس کے مرکزی کردار سینٹیاگو کے گرد گھومتی ہے۔ اس کہانی کے تمام کردار اور واقعات علامتی ہیں کیونکہ قارئین کہانی کے مختلف حصوں میں خود کو کردار اور حالات سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔سینٹیاگو زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا خواہش مند تھا۔ وہ مختلف علاقوں ، زبانوں اور روایات سے شناسائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اُس کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے تھا اور اس کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ مسیحی پریسٹ بنے۔ سینٹیاگو نے اپنے والدکے سامنے اِس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دنیا گھومنا چاہتا ہے۔ اُس کے والد نے اپنے بیٹے کے خیالات کا احترام کیا اور ساتھ ہی ساتھ اُسے یہ مشورہ دیا کہ محدوو وسائل میں دنیا گھومنا صرف چرواہے کے لیے ممکن ہے۔ سینٹیاگو نے اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے چرواہا بننا قبول کر لیا۔اب یہ چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ مختلف علاقوں میں جاتا ، وہاں کے لوگوں سے ملتا اور ُان کی بولی سیکھتا۔ اُس نے محسوس کیا کہ دنیا میں ایک ایسی زبان موجود ہے جس سے سب واقف ہیں۔ ایک ایسی زبان جو پیدائشی طور پر ہر فرد کو عطا ہوتی ہے حتیٰ کہ کائنات کی ہر شے، چرند، پرند ،نباتات، معدنیات، جانور اور اس کی بھیڑیں بھی اس زبان سے واقف ہیں۔بھیڑیں اِسی زبان میں خوشی کا اظہار کرتی ہیں اور خطرہ محسوس ہونے پر چرواہے کو آگاہ کرتی ہیں۔ چرواہے کو ادراک ہوا کہ وہ محبت کی زبان ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کے مابین ایک ربط قائم رکھتی ہے مگر زمانے کی رنگینیاں اور مال و اسباب کی لالچ ہمیں محبت کی لازوال نعمت سے مرحوم کر دیتی ہے اور ہم چشمہ قدرت سے خود کوالگ کر لیتے ہیں۔ عملی زندگی نے چرواہے کو محبت کی زبان میں پہلا سبق دیا تھا اور اب اُسے سیکھنا تھا کہ مشکل فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔سینٹیاگو نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب کی تعبیر تھی کہ اُسے اہرام مصر کے قریب بڑا خزانہ ملے گا۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے ریوڑ کو فروخت کرے اور مصر کا سفر اختیار کرے۔ دوسری طرف اس کے ذہن میں خطرات منڈلا رہے تھے، وہ سوچ رہا تھا کہ جس خزانے کی تلاش میں وہ اتنہائی قدم اٹھانے جا رہا ہے اس خزانے کا وجود محض خیالی ہے اور اگراِس وقت وہ یہ خطرہ مول نہیں لیتا تو اُسے عمر بھرایک چرواہے کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہوگی اور اُس کے حالات کبھی نہیں پلٹیں گے۔اس واقعے کے ذریعے پائیلو کوہلو نے اپنے قارئین کو درست فیصلے کی اہمیت سے روشناس کیا۔ مصنف نے بتایا کہ زندگی ہمیں آگے بڑھنے کے مواقع دیتی ہے اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دیتی ہے ۔زندگی کے ایسے وقت میں اکثر لوگ درست فیصلے سے حالات کو بدلنے کی بجائے اپنی پرانی مشکلات پر ہی تکیہ کر لینا پسند کرتے ہیںکیونکہ عام آدمی آگہی نہیں رکھتا کہ خوف کا کوئی وجود نہیں، اگر خوف کہیں پنپ سکتا ہے تو وہ صرف انسانی دماغ ہے۔خوف سے نبرد آزما ہونے کے لیے یہ جاننا ضروری ٹھہرتا ہے کہ خوف کا سامنا کر لینے کے بعد خوف کا وجود باقی نہیں رہتا ۔شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قسمت کی دیوی صرف بہادروں پر مہربان ہوتی ہے۔ چرواہے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا ریوڑ فروخت کر دے گا اور مصر کا سفر اختیار کرے گا۔ پائیلو بتاتے ہیں کہ قدرت اپنے خزانے نچھاور کرنے سے پہلے کڑا امتحان لیتی ہے۔ ایسے ہی امتحان کا سامنا چرواہے کو اُس وقت کرنا پڑا جب ایک گائیڈنے دھوکے سے اس کی تمام رقم ہتھیا لی اور فرار ہو گیا۔ مزید سفر کے لیے ضروری تھاکہ کچھ وقت کے لیے کرسٹل پیس کی دکان پر ملازمت کرے اورگھر واپسی یا سفر کو جاری رکھنے کے لیے مناسب رقم کاانتظام کرے۔ نوکری کر لینے کے بعد اُسے معلوم ہوا کہ دکان کے مالک کا بھی ایک خواب تھا، وہ ہمیشہ سے حج کے لیے جانا چاہتا تھا اور اسی مقصد کے لیے اُس نے دکانداری شروع کی تھی ۔چرواہے نے دکاندار سے سیکھا کہ کچھ لوگ اپنے خوابوں کو پورا ہوتے دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو گیا تو وہ باقی ماندہ زندگی کس آس کے سہارے گزاریں گے؟ سینٹیاگو نے کاروبار کو مزید نفع بخش بنانے میں مدد کی اور اُسے کمیشن بھی ملنے لگا۔ کمیشن میں حاصل ہونے والی رقم کی بنیاد پر اس نے دو بارہ سفر کا ارادہ کیا اور قافلے کے ہمراہ اہرام مصر میں خزانے کی تلاش کے لیے روانہ ہو گیا۔ اسی سفر کے دوران سینٹیاگو کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی، وہ چاہتا تھا کہ خزانے کی تلا ش ترک کر دے اور ریگستانی لڑکی فاطمہ کو جیون ساتھی بنا لے۔اس کی ملاقات کیمیا گر سے بھی ہوئی ۔ناول نگار نے انسانی نفسیات کی رمزیں نہایت خوبصورت انداز میں بیان کی ہیں اور قارئین کو بتایا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوںہمیں ہر صورت اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سرگرداں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks