سید ظفر ہاشمی
سانحہ پشاور کے نتیجے میں حکومتی اور عسکری سطح پر دہشتگردی سے لڑنے کا جو عزم بیدار ہوااس کا اظہار دہشتگردوں کو دی جانیوالی پھانسیوں کی صورت میں نظر آرہا ہے لیکن جو کام ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے کیا وہ یقینا قابل تعریف ہے کہ وہ 16دسمبر کو دہشتگردی کا نشانہ بننے والے سکول میں تدریسی عمل دوبارہ شروع ہونے کے موقع پر اپنی اہلیہ سمیت اس سکول کے بچوں اور اساتذہ کے ساتھ جا کر کھڑے ہوگئے ۔ یہ انکا ان حالات میں ایک منفرد طرز عمل تھا جس سے ایک طرف تو ان کے دہشتگردوں اور دہشتگردی سے لڑنے کے عزم کا اظہار ہو رہا تھا تو دوسری جانب ان خاندانوں کیلئے تقویت کا باعث بن رہا تھا جو دہشتگردی کے اس واقعے سے بری طرح متاثر ہوئے اور جن کے معصوم اور پھول جیسے بچے اس سانحے کے نتیجے میں اس جہان فانی سے کوچ کر کے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ان کیلئے تو اب صبر کے علاوہ کچھ نہیں لیکن جن کے بچے قدرت خداوندی سے حیات ہیںوہ انہیں دوبارہ اس سکول میں بھیجنے پر تذبذب کا شکار تھے انہیں اس موقع پر جنرل راحیل شریف کی موجودگی سے ضرور حوصلہ ملا ہو گا ۔ یہ وہ کام تھا جو شاید ہمارے وزیر اعظم کو کرنا چاہیے تھا لیکن سانحہ پشاور کے بعد کی صورتحال میں اگر کسی کا قائدانہ کردار نظر آیا تو وہ راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے حکومت سمیت پوری سیاسی قیادت کو ایسے فیصلوں پر مجبور کیا جو دہشتگردوں پر یہ واضح کر سکیں کہ ان کیلئے یہ سرزمین اتنی آسان نہیں رہی کہ جب چاہیں جہاں چاہیں اس وطن میں بسنے والوں کو لقمہ اجل بنا دیں ، اب وہ اگر ایسا کریں گے تو انہیں اس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔جس کا عمل شروع ہو چکا ہے اور ہم نے دیکھا کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران ان میں سے کئی درندوں کوتختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے اور آنیوالے دنوں میں اس کام میں مزید تیزی کا امکان ہے کیونکہ جب فوجی عدالتیں تشکیل پا جائیں گی تو اس نوعیت کے کیسوں کو نمٹانے میں بھی تیزی آئے گی اور پھانسیوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گا لیکن ارباب اختیار کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ دہشتگردی کا مسئلہ صرف پھانسیوں سے حل نہیں ہو گا بلکہ ان تما م وجوہات سے بھی ساتھ ساتھ نمٹنا ہو گا جو در حقیقت اس سوچ کی آبیاری کرتی ہیں اورملک میں دہشتگردی کا باعث بن رہی ہے ۔ورنہ ہم دو سال بعد کیا کریں گے جب یہ عدالتیں ختم ہو چکی ہوں گی ایسا نہ ہو کہ اس وقت ہمیں پھر ایک اور آئینی ترمیم کی ضرورت پڑ جائے اور ہم اس پر لڑ رہے ہوں ،ہمارے سیاستدان رو رہے ہوں اور آئینی ترمیم کیلئے ووٹ بھی دے رہے ہوں ۔لہٰذا دور رس نتائج کیلئے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے عمل پر بھی کاربند رہنا ہو گا ورنہ وقتی حل دہشتگردی کے مستقل خاتمے کی ضمانت نہیں ہو سکتا ۔ اس حوالے سے حکومت نے جو دیگر فیصلے کئے ہیں وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ خود ان پر نظر رکھیں اور ان کی مانیٹرنگ کرتے رہیں ۔ اس کام پر ڈھیلے پن کا مظاہرہ کرنا مجرمانہ غفلت ہو گی جس کے ذمے دار صرف اور صرف حکمران ہوں گے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت جے یو آئی کے موقف پر بھی توجہ دے اور دینی مدارس کے نظام میں بھی اصلاح کا عمل تر جیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے ۔ موجودہ صورتحال میں ایک حوصلہ افزاء خبر یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان کے مابین دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے تعاون کی فضا پائی جا رہی ہے کئی برسوں کے بعد اس تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں افغانستان کے اندر تبدیلی اور نئے صدر اشرف غنی کی مثبت سوچ کا آئینہ دار ہے۔ اس سے قبل دونوں ملکوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے وعدے وعید تو ہوتے رہے لیکن سابق صدر حامد کرزئی کے منافقانہ کر دار کے باعث افغان سرزمین سے پاکستان میں مداخلت کو روکا نہ جا سکا اور یہ ملک دہشتگردی کا شکار رہا ۔ ان حالات میں اشرف غنی کو امید کی نئی کرن قرار دیا جا سکتا ہے جن کی موجودگی سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایسے اقدامات برئے کا ر لانے چاہئیں جو دونوں ملکوں کے عوام کو امن و امان فراہم کر سکیں ۔ فی الحال اطلاعات ہیں کہ دہشتگردوں کیخلاف آپریشن پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستاں میں بھی شروع ہو چکا ہے اور اسی آپریشن کے نتیجے میںپشاور سکول پر حملے کے پانچ ملزمان کو افغانستان سے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ بعض ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ایک کارروائی کے نتیجے میں ملا فضل اللہ کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے لیکن سرکاری ذرائع کی جانب سے اس خبر کی کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی ۔ دوسری جانب سیاسی محاذ پر جاری سرگرمیوںکا جائزہ لیا جائے تو این اے 122 جہاں سے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے مئی 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو شکست دی تھی ، دھاندلی کی تحقیقات کرنیوالے کمیشن نے اپنی رپورٹ دیدی ہے ۔ رپورٹ کے باوجود اگرچہ سردار ایاز صادق کی عمران خان پر برتری برقرار ہے لیکن 34ہزار سے زائد غیر تصدیق شدہ ووٹوں نے اس الیکشن کے بارے میں سوالیہ نشان ضرور کھڑا کر دیا ہے اور اسی سوالیہ نشان کے باعث وفاقی وزیر اطلاعات سینٹر پرویز رشید خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اس رپورٹ کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جس غصے سے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دئیے وہ اس بات کے غمازہیں کہ یہ رپورٹ اس وقت ان کے حواسوں پر سوار ہے جس کے باعث ان کیلئے صحافیوں کے سوالات کا سامنا کر نا مشکل ہو گیا ہے ۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks