دہشت گردوں کے حربوں میں جدت , بم ڈسپوزل سکواڈ بھی چکرا گیا
عاطف رضا
سال 2014اپنے اختتام کے ساتھ ہی اپنے پیچھے بہت سے تلخ واقعات کی یاد چھوڑ کر رخصت ہوگیا۔ دنیا بھر میں جہاں نئی جدت اور ٹیکنالوجی پر ریسرچ ہورہی ہیں وہاںپاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر بھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں جس کی ایک مثال کراچی میں فعال دہشت گرد ہیں جنہوں نے سالِ گزشتہ دیسی ساختہ کریکرتیار کیا ہے جس میں دھماکہ خیز مواد کا استعمال کم اور آتش گیر مادے کا استعمال بڑھا دیا گیا ہے جس کے باعث جائے دھماکہ پر آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے باعث قریب موجود لوگ جھلس جاتے ہیں۔ 2013ء میں دہشت گردوں نے موبائل فون سروس کی بندش کا توڑ بھی نکال لیا تھا۔ ان کریکرز کے استعمال کے بارے میں بات کی جائے تو 10نومبر کو ایم اے جناح روڈ پر پریڈی تھانے کی پولیس موبائل پرہونے والے کریکر حملے میں جھلس کر دو اہل کار شہید ہوگئے، بعد ازاں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ دہشت گردی میں ہائی فلیم ایبل مواد (انتہائی خطرناک آتش گیر مادہ ) استعمال ہوا ہے۔ اس سے قبل یہ کیمیکل 31اکتوبر کی شب گلشنِ اقبال میں نیپا چورنگی کے امام بارگاہ مدینۃ العلم کے قریب موجود پولیس موبائل پر حملے میں استعمال ہواتھا۔ گلشنِ اقبال کے علاقہ میں ملزموں نے موبائل پر دستی بم کے علاوہ آتش گیر مادہ بھی پھینکا تھا۔ واردات کے وقت پولیس اہل کار موبائل کے باہر کھڑے تھے جس کے باعث وہ زخمی ہوئے جب کہ پریڈی تھانے کی پولیس موبائل پر حملے میں صرف آتش گیر مادہ استعمال کیا گیا ۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پریڈی حملے میں زیادہ تباہی کی دو بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں اول، پولیس موبائل میں نہ صرف آنسو گیس کے شیل کا ڈبہ بلکہ سرکاری اسلحہ بھی موجود تھا۔ جب کریکر پھینکا گیا تو نہ صرف آنسو گیس کے شیل بلاسٹ ہوئے بلکہ سرکاری رائفلوں میں لوڈڈ میگزین کی 60گولیاں بھی چل گئیں۔ جائے وقوعہ سے بڑی تعداد میں گولیوں کے خول اور پھٹنے والے آنسو گیس کے شیل بھی ملے تھے۔ موبائل کی باڈی پر جو سوراخ موجود تھے وہ ان سرکاری رائفلوں کی گولیوں اور آنسو گیس کے شیلز کے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ہائی فلیم ایبل مواد میں 70فیصد سلفر فاسفورس، ایلیمونیم پائوڈر، پٹرول مکسچر اور گلیسرین کا استعمال کیا گیا ہے۔یہ کیمیکل کا مرکب کوئی عام شخص تیار نہیں کر سکتا اس مرکب کو تیار کرنے والا شخص بم بنانے کاکوئی ماہر ہوگا۔ مرکب تیار کر کے اسے ایئر ٹائٹ پلاسٹک بیگ میں پیک کیا جاتا ہے جسے پھینکے جانے کی صورت میں جب تھیلی پھٹتی ہے تو جہاں جہاںیہ مرکب گرے گا تو یہ آکسیجن یا نمی ملتے ہی انتہائی تیزی کے ساتھ نہ صرف آگ بھڑکائے گابلکہ انتہائی گرمائش بھی پیدا کرسکتاہے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل یہ کیمیکل شہر میں ہونے والی دہشت گردی اور ہڑتالوں کے دوران گاڑیاں جلانے کی کئی وارداتوں میں استعمال ہوا ہے جن میں 28دسمبر 2009ء میں سانحہ عاشورہ کے بعد بازاروں کو آگ لگانے کے لیے اسی کیمیکل کا استعمال کیا گیاتھا۔ 2010ء میں میری ویدر ٹاور کے قریب جلائی جانے والی مسافر بس اور کیماڑی میں مسافروں سے بھری منی بس جلانے کے لیے بھی اسی کیمیکل کا استعمال کیا گیا تھا، تاہم پریڈی تھانے کی موبائل پر اس نوعیت کے حملے کا مقصد پولیس اہل کاروں کا جانی نقصان کرنا تھا جو کہ ایک تشویش ناک اَمر ہے۔اسی طرح سال 2013ء میں کراچی کے دہشت گردوں نے موبائل فون سروس کی بندش کا توڑ نکال لیا تھا ۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر 24دسمبر کو ایم اے جناح روڈ پر ہونے والے بم دھماکے میں دہشت گردوں نے موبائل فون ڈیوائس کا استعمال کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ پلانٹڈ بم تھا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ بم کے ساتھ منسلک موبائل فون میںالارم سیٹ کیا گیا تھا جس کے بجتے ہی بم ڈیٹونیٹ ہوا اور دھماکہ ہوگیا ۔ تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ یہ دہشت گردوں کی جانب سے اس نوعیت کا آزمائشی بم دھماکہ بھی ہوسکتا ہے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی اس نئی تخلیق سے موبائل فون سروس کی بندش کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوسری جانب 2012ء میں شہر کے بعض مقامات سے بر آمد ہونے والے روڈسائڈ بموں میں 9والٹ کی 10بیٹریوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں کی اس تخلیق نے بم ڈسپوزل سکواڈ کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق بم کو ڈیٹونیٹ کرنے کے لیے 9والٹ کی ایک بیٹری کافی ہوتی ہے جبکہ بم کے سرکٹ کو پیچیدہ بنانے کے لیے اس میں 9والٹ کی دوبیٹروں کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اسے ناکارہ بنانے میں مشکلات پیش آئیں ، تاہم تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بم میں دو بیٹریوں کے استعمال سے بم کوتقریباً 7سے 10گھنٹوں میں ڈیٹونیٹ کیا جا سکتا ہے اور 10بیٹریوں کا استعمال دہشت گردوں کی مہارت کا ثبوت ہے ۔ اس اقدام سے بم کی طاقت تو نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن ٹائمنگ کو بڑھانے کے لیے کئی بیٹریوں کا استعمال کیا گیا اور زائد بیٹریوں کے استعمال سے چند گھنٹے تک نہیں بلکہ بم رکھے جانے کے چند دنوںبعد تک بھی اسے بلاسٹ کیا جا سکتا تھا ۔ اگر بم نصب کیے جانے کے فوری بعد ہدف چک بھی جائے تو اگلے روز ، دوسرے روز یا تیسرے روز بھی دھماکہ کیاجا سکتا تھا ۔ 2012ء کے اوآخر میں ہی اورنگی ٹائون کے بعض علاقوں میں پراسرار دھماکے ہوئے تھے تاہم جائے وقوعہ کا تعین نہیں ہوسکا تھا۔دھماکوں سے اورنگی ٹائون کے متاثرہ علاقوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ چند ماہ تک دھماکوں کا یہ سلسلہ جاری رہا، بعد ازاں اورنگی ٹائون تھانے کے سامنے ایک روز رات کے وقت دو دھماکے ہوئے۔ تھانے کے قریب دھماکوں کے باعث پولیس فوراً جائے وقوعہ پر پہنچی تو وہاں سے دو مشتبہ ٹینس بال بر آمد ہوئے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے مذکوہ ٹینس بال کا معائنہ کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ یہ بال نہیں بلکہ بال ٹائپ دیسی ساختہ کریکر ہے جسے ٹینس بال میں تیار کیا گیا ہے بعد ازاں یہ بال ٹائپ کریکر شہر میں دہشت گردوں کی جانب سے خوف و ہراس پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیے جانے لگے جو بیش تر اوقات بھتہ خوری کی وارداتوں میں بھی استعمال کیے گئے۔ بال بم میں صرف بارود اور پریشر بنانے کے لیے کچھ مقدار کنکریوں کی ہونے کے باعث وہ زیادہ نقصان تو نہیں کرتے لیکن دھماکہ زور دار ہوتا ہے جس سے خوف پھیل جاتا ہے۔ دہشت گرد ٹینس بال بموں کو خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ان کا کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks