یہ حکایت کئی بار پڑھی اور سنی کہ گھوڑے پر سوار بادشاہ سلامت بغیر پروٹوکول کے شکار کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ راوی نے یہ نہیں بتایا کہ ان دنوں شکار تیر سے کیا جاتا تھا یا بندوق سے۔ بہرحال بادشاہ سلامت باغ کے قریب سے گزر رہے تھے کہ باغبان سے پانی پلانے کو کہا۔ باغبان نے ایک انار توڑ کر نچوڑا جس سے پیالہ بھر گیا۔ ذائقہ بھی زبردست تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ اس زرخیز باغ کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل تو کنگ سیکرٹریٹ میں پہنچنے پر ہی ہونا تھا۔ اب تو بادشاہ سلامت شکار کےلئے جا رہے تھے۔ شکار بھی پتہ نہیں شیر کا کرنا تھا ہرن کا مرغابیوں کا کبوتر و فاختہ وغیرہ کا۔ بادشاہ کو اناروں کا ذائقہ اس قدر پسند آیاکہ واپسی پر باغبان اسکی فرمائش کی۔اس نے ایک انار توڑا اسے نچوڑا لیکن پیالہ بھر نہ سکا۔ دوسرے اور پھر تیسرے انار سے پیالہ بھرا۔ بادشاہ نے حیرانی سے اس سے وجہ پوچھی تو باغبان شاید خدا کی حکمتوں کے کچھ راز سمجھتا تھا۔ اس نے کہا بادشاہ کی نیت میں کھوٹ آ گیا ہے۔ اس پر بادشاہ کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے فوری طور پر اس باغ کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ دل سے نکال دیا۔ اس حکایت کو عموماً حکمرانوں کی نیت کے اثرات کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ نیک نیتی سے شیریں ثمر ملتا ہے جبکہ بدنینی کے بُرے اثرات سامنے آتے ہیں۔ انار فیم بادشاہ ایک بار پھر شکار کیلئے نکلا۔ پھر پیاس لگی۔ اب وہ جنگل میں ایک جھونپڑی کے قریب سے گزر رہا تھا۔ بادشاہ نے پانی کیلئے جھونپڑی کے دروازے پر دستک دینے کے بارے سوچا مگر جھونپڑی کا دروازہ ہی نہیں تھا۔ بادشاہ سلامت نے ہے کوئی اندر کہا یا ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالتے ہوئے انگوٹھے جوڑ کر زور سے پھونک مار کر گھگو بجایا۔ جس سے اندر کا مکین باہر نکلا۔ جہاں گھوڑے پر سوار ایک انسان سوالی بن کر پانی مانگ رہا تھا۔ ادھیڑ عمر کے شخص نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھر کر پیش کر دیا۔ پیاس بجھنے پر بادشاہ خوش ہوا۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کوئی کام ہو تو بے دھڑک شاہی محل چلے آنا۔ ان دنوں کارڈ کا رواج ہوتا تو بادشاہ سلامت کارڈ سے تھما دیتے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے شکار سے بالکل اسی طرح فرصت نکالی جس طرح ہمارے حکمران بیرونی دوروں سے نکال کر ملکی امور دیکھنے کا تکلف فرماتے ہیں۔ بادشاہ نے دربار لگایا، اس دوران دربان نے اطلاع دی کہ ایک دیہاتی دربار میں حاضر ہونے کےلئے درخواست گزار ہے۔ کہتا ہے اس نے کچھ عرصہ قبل جنگل میں حضور کو پانی پیش کیا تھا۔ بادشاہ کو یاد آگیا اور فوری طور پر دربار میں حاضری کی اجازت دیدی۔ اس نے آتے ہی عرض کی۔ظلِّ الٰہی گزارا نہیں ہوتا۔ بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں مدد فرمائیے۔ بادشاہ نے خزانے کے نگران کو حکم دیا ڈیڑھ من گندم، من چاول، پانچ سیر شکر، دو سیر گھی، پاﺅ مرچ ایک چائے کی پُڑی وغیرہ وغیرہ اسکے حوالے کردو۔ یہ شخص غریب اور جہاندیدہ بھی تھا۔ اس نے جان کی امان پانے کی استدعا کرتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ جس نے ابھی ابھی اپنی دانست میں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اسکی غربت دور کی تھی، اسے جان کی امان دیتے ہوئے عرض کرنے کی اجازت دے دی۔ اس نے مزید کہا کہ وہ علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے تالی بجاتے ہوئے تخلیہ کا حکم صادر فرما دیا۔ چند ثانیے میں دربار ہال خالی ہو گیا تو سائل نے عرض کیا حضور آپ جدی پشتی بادشاہ نہیں ہیں۔ اس جملے پر بادشاہ طیش میں آگیا اور چلاتے ہوئے کہا اس کا سر قلم کر دومگروہاں کوئی حکم کی تعمیل کرنیوالا نہیں تھا۔ ساتھ ہی اجنبی نے جان کی امان دینے کا وعدہ یاد دلایا تو بادشاہ کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا۔ پوچھا تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ میرا باپ دادا پردادا سب بادشاہ تھے۔ سائل نے جواب میں کہا کہ آپ نسل در نسل بادشاہ ہوتے تو مہینے کا راشن دینے کا حکم صادر فرمانے کی بجائے میری غربت دور کر دیتے۔ بادشاہ کی والدہ زندہ تھی۔ وہ فوری طور پر اسکے پاس گئے۔ تلوار سونتی ہوئی تھی۔ پورے جلال میں والدہ سے ماجرہ بیان کرتے ہوئے پوچھا سچ بتاﺅ ورنہ گردن اڑا دونگا کہ میں کس کا بیٹا ہوں۔ والدہ نے نگاہیں جھکالیں جس سے بادشاہ اندر سے کانپ گیا۔ خاتون نے کہا بیٹا وہ شخص درست کہتا ہے۔ ہمارے ہاں اولاد نہیں تھی۔ ہم نے تمہیں گود لیا تھا اور اسکی کسی کو خبر نہ ہونے دی۔ تمہارے اصل ماں باپ اسی محل میں تیسرے د رجے کے ملازم تھے۔مجھے یہ واقعہ اپنے حکمرانوں کے رویے دیکھ کر بے اختیار یاد آ جاتا ہے۔ حکمران آج کے ہوں یادوررفتہ کے، انکے رویے ایک جیسے ہیں۔ عوام کو ان کا حق دیتے ہوئے انکی جان پر بن جاتی ہے۔ اگر بادل نخواستہ کوئی ریلیف دیں تو خود کو حاتم طائی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرف کے خالصتاً آمرانہ دور میں پٹرول کی قیمت 54 روپے لٹر سے کم ہو کر 28 روپے تک بھی آ جاتی تھی۔ معاملات مشرف دورمیں سیاستدانوں کے ہاتھ آئے تو سوچ کےلئے دماغ کے بجائے پیٹ استعمال ہونے لگا۔ پیٹ تو پھر سب کو لگا ہوا ہے جو عوام کے خون پسینے سے بھرتے بھرتے ہی بھرتا ہے بلکہ برتا ہی نہیں۔ زرداری دور میں کمالات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی جاری ہے۔ زرداری حکومت نے پٹرول کی قیمتوں کو 54 سے 100 سے اوپر پہنچا دیا جس میں نواز لیگ نے مزید اضافہ فرمایا۔ اب جبکہ پٹرول کی عالمی سطح پر مٹی پلید ہوتے ہوئے قیمت 100 ڈالر سے کم ہو کر 52 ڈالر ہو گئی ہے تویہی ریلیف عوام تک پہنچانے میں حکمرانوں کے دل پر گویا ہاتھ پڑ رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 66 ڈالر ہوئی تو عوام کو محض 9 روپے کا ریلیف دیا گیا۔ عالمی منڈی کیمطابق 34 فیصد ریلیف دیا جاتا تو قیمت 75 روپے لٹر ہونی چاہئیے تھی۔ اگلے ماہ مزید ریلیف تو دیا گیا لیکن وہ ملا کر بھی 34 فیصد نہیں بنتا۔ حکمران قوم پر احسان جتاتے ہوئے آئندہ ماہ پٹرول کی قیمتیں مزید کم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ کی قیمتوں میں کمی کیمطابق پاکستان میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت 52 سے 55 روپے سے زائد نہیں ہونی چاہئیے۔ ایسا ریلیف قوم کی قسمت میں نہیں ہے۔ اگر حکمران جَدی پُشتی رَجّے پُجّے ہوتے،ذہنی غریب نہ ہوتے تو حاتم طائی کا پوز بنانے کے بجائے اپنے لوگوں کو حقیقی ریلیف دےکر اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتے ۔ محنت کے بل بوتے اور اللہ کی کرم نوازی سے مالی طور پرغریب آدمی دولت سے مالا مال ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں ہے اسی طرح غربت بھی جرم نہیں۔ انسان غریب بھلے ہو غریب غریب ذہنیت نہیں ہونی چاہیے ۔ بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارب پتی سیاستدانوں کی اکثریت غریب ذہنیت کی بیماری میں مبتلا ہے۔ دل پر تھوڑا سا جبر ،پیٹ کو نظر اندازکر کے دماغ کو بروئے کار لا کر عوام کو ان کا جائز حق دے دیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی وہ پاکستانیوں تک پہنچا دیں۔ اس سے بجلی کی قیمت میں نصف کمی ہو سکتی ہے مہنگائی کا حاتمہ ہو سکتا ہے۔ لوگ یہ بھی نہیں کہیں گے کہ حکومت تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی عمران خان کے دھرنے کے دباﺅ کے باعث کرتی رہی ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks