مشکل فیصلے کرنا ہوں گے
سید ظفر ہاشمی
یوں تو 16دسمبر ہر سال ہی د ل و دماغ پر ایک بوجھ بن کر گزرتا ہے۔ یہ دن پاکستانی تاریخ کاایک ایسا سیاہ ترین باب ہے جسے نہ تو کبھی بھلایا جا سکے گا اور نہ ہی تاریخ کے اوراق سے خارج کیا جا سکے گا ۔ 16دسمبر 1971ء کوسقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں پاکستان کے جسم پر لگنے والا یہ زخم آج بھی اس طرح تازہ ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو لیکن اس سے کہیںزیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے اس اتنے بڑے سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ ہمارے ساتھ جس وقت یہ سانحہ رونما ہوا اس وقت ہم اپنی آزادی کی سلور جوبلی بھی نہ منا پائے تھے ۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے ہم سب متحد ہو کر ایک قوم بننے پر توجہ دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہم سب کچھ ہیں صرف پاکستانی ہی نہیں ہیں۔تبھی پاکستان کا یہ حال ہے کہ دہشت گرد ی اس کی سلامتی اور یکجہتی کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ اس مرتبہ تو 16 دسمبر کو ایک اور سیاہ تاریخ رقم کی گئی جس کا غم سانحہ سقوط ڈھاکہ سے کسی طرح کم نہ تھا ۔ انسانیت کے دشمنوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں وہ کھیل کھیلا کہ جسے سن کر اور دیکھ کر ہر انسان کی روح کانپ اٹھی ۔ اپنے آپ کو مسلمان قرار دینے والے ان ملعونوں کو نہ مذہب کی حرمت کی فکر ہے اور نہ خدا کا خوف ۔کسی انسان کے لیے تو 130بچوں سمیت 140سے زائد افراد کی جانوں سے کھیلنے کا تصور کر نا بھی محال ہے یہی وجہ ہے کہ خیبر سے کراچی تک ہر شہری نے اس دکھ اور درد کو محسوس کیا ۔ کوئی دل ایسا نہیں جو ان معصوم شہیدوں کی بے وقت شہادت پر دکھی نہ ہواور کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو ۔کر ب کا ایک عالم ہے جس کا اظہار ہر جانب سے دیکھنے میں آ رہا ہے اور پوری قوم ان خاندانوں کے دکھ درد میں شریک ہے جو اس سانحہ سے متا ثر ہوئے جن کے گھر کی رونقیںاجڑ گئیں اور جن کے گھروں سے معصوم مسکراہٹیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں ۔ اس درد کو صرف ہم وطنوں نے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم نے بھی محسو س کیا ۔ جس کا اندازہ مختلف ممالک کی جانب سے آنے والے اظہا ر ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے درد بھرے پیغامات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے تین روزہ سوگ کا اعلان اور پرچم کو سرنگوں کیا جانا ایک بروقت فیصلہ ہے ۔ یہ سانحہ کسی طور بھی قومی سانحے سے کم نہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا رد عمل بھی فطری تھا تما م قائدین نے فورا ًپشاور کا رخ کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اس نقصان کو اپنا نقصان سمجھتے ہیں اور اس پر اپنی ذمہ داریوں کے اظہار سے غافل نہیں ۔ کہاں احتجاج احتجاج کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں اور کہاں جماعتیں اپنے احتجاج بھول کر غم زدہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہو گئیں ۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ ذمہ داری کاتقاضا تحریک انصاف سے تھا جس کی اس صوبے میں حکومت ہے اور جس پر گذشتہ چار ماہ سے اسلام آباد میں دھرنے پر تنقید ہو رہی تھی کہ عمران خان ہی نہیں بلکہ اس صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی اپنی تمام ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اور صرف دھرنے میں مصروف ہو گئے ہیں ۔ لیکن عمران خان نے سوگ میں 18دسمبر کی ملک گیر ہڑتال کی کال واپس لے کر اور تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے پشاور پہنچ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ۔ ان کی جانب سے وزیر اعظم کی طرف سے بلائی جانے والی پارلیمانی رہنمائوں کی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ بھی وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا ۔ قبل ازیں پی ٹی آئی یہ فیصلہ کرنے جا رہی تھی کہ اس کانفرنس میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نمائندگی کریں گے لیکن پھر سینئر رہنمائوں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کانفرنس میں انکی شرکت اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا سارا کریڈٹ حکومت کے کھاتے میں نہیں جائے گا ۔ ویسے بھی یہ وقت ذاتی رنجشوں اور سیاسی اختلافات کو دل میں رکھنے کی بجائے انہیں فراموش کر کے دہشتگردی سے نمٹنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کا ہے اس سے دور رہنے کا نقصان نا قابل تلافی بھی ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس نازک موقع پر قومی کانفرنس یا اجلاس کا طلب کیا جاناایک مستحسن اقدام ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن اس وقت ضرورت اس عزم کے اظہار کی ہے جو اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے اور یہ عزم و حوصلہ حکومت نے دکھانا ہے ۔ اگر حکومت کو یاد ہو تو اس سے پہلے بھی یہ جماعتیںاسے دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا مینڈیٹ دے چکی ہیں لیکن حکومت نے جس طرح اس مینڈیٹ کا استعمال کیا وہ قطعاً قومی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا ۔اور اب دوبارہ حالات یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ایک بار پھر اس سلسلے میں حکومت کے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے ۔ایسا ہی ہوا اور ایک بار پھر یہ جماعتیں اس سلسلے میںپیچھے نہیں رہیں اور سب نے دہشتگردوں کو کسی صورت معاف نہ کر نے کا بھرپور عزم ظاہر کر دیا ہے ۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ اس نے کس طرح اس مسئلے سے نمٹنا ہے ۔ ہم کو دہشت گردی جیسی آفت سے دوچار ہوئے اب توکئی سال گزر چکے ہیں لیکن افسوس کے لاکھوں جانے گنوانے کے باوجود بھی ہم اپنے اندر وہ عزم اور وہ ذمہ داری پیدا نہیں کر پائے جس کی ضرورت تھی ۔وقت آگیا ہے کہ مزید نقصان سے بچنے کیلئے ہمیں سسٹم کی وہ تمام قباحتیں دور کرنا ہوں گی جو دہشتگردوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اس موقع پر ہم اپنی مسلح افواج کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی پشاور پہنچ کر جس طرح غمزدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کیا اور جس طرح اپنی افواج کا حوصلہ بڑھایا وہ بھی وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا جس نے عوام کی نظروں میں ان کی عزت کو اور بڑھا دیا۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks