انسانی زندگی نہ صرف یہ کہ سب سے قیمتی چیزہے بلکہ قدرت کا سب سے بڑا احسان بھی۔ انسان کو زندگی صرف ایک دفعہ ملتی ہے جسکی حفاظت کرنا اس کا حق ہے۔ زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے با مقصد طریقے سے بسر کرنا ہی سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ ویسے تو دُنیا میں ہر جگہ ہر انسان کی زندگی نہ صرف اہم ہوتی ہے بلکہ انتہائی قیمتی بھی لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں بعض اوقات ایک انسان پر پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ ہمارا خاندانی نظام بہت سے حوالوں سے منفرد ہے اور بہت سی خوبیوں کا حامل بھی اور اسی بُنیاد پر اسے ہمارے معاشرے کی اصل طاقت بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم جیسے ممالک میں انسانی زندگی کی اہمیت اُتنی نہیں جتنی ترقی پذیر ممالک میں ہے اور اس کی بُنیادی وجہ معاشرے کی تفریق اور استحصال ہے۔ آجکل ملک احتجاجی سیاست کے شکنجے میں ہے جس کے مضر اثرات پورے معاشرے پر نظر آرہے ہیں اور دُنیا کے سامنے ہزیمت اس کے علاوہ ہے۔ میڈیا پر دن بھر کی خبریں اور کوریج ہمارے لیے جگ ہنسائی سے کم نہیں اور ہر ایک اپنے اپنے مقاصد کے حصول میں کوشاں ہے ملک کی بہتری کسی کا مطمع نظر نہیں۔ہمارے ہاں سیاست صرف احتجاج، اشتعال، نفرت اور مخالفت برائے مخالفت کا نام بن کر رہ گیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر عوام کے ذہنوں میں سیاستدانوں سے بیزاری اور نفرت عیاں ہے۔ اس طرزِ سیاست نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے جو کہ ہماری پہلے سے زبوں حالی کا شکار معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سیاست کا محور ذاتی عناد اور مفاد کے سوا کُچھ نہیں۔ دُنیا بدل رہی ہے مگر ہم وہاں کے وہاں ہی کھڑے ہیں۔ تبدیلی کے نعرے تو سب لگاتے ہیں مگر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ 90 کی دہائی کے طرزِ سیاست نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا مگر ایک طویل تعطل کے بعد جمہوریت بحال ہوتی تو اُمید تھی کہ اب سیاستدانوں کا طرزِ سیاست وقت کے تقاضوں کے مطابق بدل چُکا ہو گا۔ جہاں تک ملک کی دوبڑی او ر روایتی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے اُنہوں نے تو کسی حد تک حالات سے سبق سیکھا ہے اور اپنے اندر برداشت کے عنصر کو بھی جگہ دی ہے جسکی بدولت باوجود مخالفت اور اختلافِ رائے کے گذشتہ جمہوری حکومت نے اپنا عرصہ پورا کیا اور اقتدار نئی منتخب حکومت کے سپرد کیا ۔ آج بھی اُن دو جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان یہ احساس اور سوچ کافی حد تک موجود ہے جسے کُچھ لوگ نورا کشتی کہتے ہیں اور کچھ فرینڈلی اپوزیشن مگر ان الزامات سے قطع نظر یہ ایک مثبت طرزِ عمل ہے۔اس کے برعکس تحریکِ انصاف کی صورت میں سامنے آنے والی تیسری فورس جسے حالیہ انتخابات میں کافی پذیرائی بھی ملی ہے کا طرزِ عمل بہت سے سوالات اور شبہات کو جنم دیتا ہے۔ حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین تنائو اب خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے جہاں پر ہر وقت تصادم کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ اور اسکے چند دیگر رہنمائوں بشمول اسکے اتحادی شیخ رشید کی جانب سے جو زبان اور لہجہ استعمال کیا جا رہا ہے اس سے عوام میں اشتعال پھیل رہا ہے جو کہ عملاً اب سڑکوں پر بھی نظر آنے لگا ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ اس طرح کی اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتا مگر ہمارے ہاں بُنیادی جمہوری حق کے زمرے میں سب کُچھ کیا جا رہا ہے۔ بد قسمتی تو یہ ہے کہ حق سب کو یاد ہے مگر ذمہ داری کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ حکومت بھی خوفزدہ رہتی ہے جسکی وجہ سے قانون کی عملداری بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ گذشتہ دنوں فیصل آباد میں تحریکِ انصاف کی اپیل پر احتجاج کیا گیا جس کے دوران شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی اور ایک انسانی جان کا بھی ضیاع ہوا۔ اس کے ردِ عمل میں ملک بھر میں احتجاج کیا گیا جس سے روز مرہ کی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ ہماری سیاست میں اور بہت سے منفی اور خطرناک رُجحانات کے علاوہ لاشوں کو ایشو بنا کر اپنے احتجاج کو تقویت دینے کا طریقہ بھی سرائیت کر چُکا ہے جو کہ ایک غیر انسانی طرزِ عمل ہے۔ کسی کی موت کو اپنے حق میں استعمال کرنا کسی صورت بھی اور اس سے سیاسی مفاد حاصل کرناایک غیرانسانی فعل کے زمرے میںآتاہے۔ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے والے تو دُنیا سے چلے جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے نہ جانے کتنے غمزدہ لوگوں کو بے سہارا چھوڑ جاتے ہیں اور جنکے نام کی خاطر یہ سب کیا جاتا ہے اُنہیں صرف اپنے مفاد کی فکر ہے۔ ماڈل ٹائون کے واقع میں 14 لوگوں کی جانیں گئیں مگر عوامی تحریک کی قیادت کا تو کچھ نہیں گیا۔ اُنکاطرزِ زندگی بھی ویسا ہی ہے اور بچے بھی محفوظ ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد میں جاں بحق ہونے والا غریب نوجوان تو چلا گیا مگر تحریک انصاف کی قیادت کے اپنے بچے تو محفوظ ہیں اور اُنہیں کسی کی پرواہ بھی نہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما بڑی بڑی گاڑیوں میں فیصل آباد تو گئے مگر کسی کو اپنے جا ں بحق ہونے والے کارکن کے لواحقین کو ایک پیسہ کی بھی امداد دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسا رجحان اور طرزِ عمل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کوئی بھی مُہذب معاشرہ یا مذھب اسکی اجازت نہیں دے سکتا اور ہمارا مذھب تو ہے ہی سلامتی اور امن کاداعی۔ معاشرے کو بحیثیت مجموعی اس طرزِ عمل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے جسے سنسنی پھیلانے کی بجائے صحیح صورتحال کی ترجمانی کرنی چاہیے تا کہ جو بھی اس قسم کی سوچ یا محرکات رکھتا ہو اُسے بے نقاب کیا جا سکے۔ یہ سوچ کہ جب تک لاش نہ گرے احتجاج میں گرمجوشی نہیں آ سکتی ایک انتہائی غیر انسانی اور خطرناک ذہن کی عکاس ہے جسے روکنا ہم سب کا فرض ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks