غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم

میرا ایک پرنا کالم جو آج بھی بےلطف نہیں ہوا:

اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بےغیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تلاش کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معاملات گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔

یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔ گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔ کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائی اور اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دلائل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتا۔

امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں لاغر بیمار وغیرہ بھی شامل تھے؟!

جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟

ان کا جرم تو بتایا جائے۔

لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل تلاشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے کوشش کو کیا نام دیا جائے۔

ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواںدھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔

چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی علامت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا زنانہ خصلت ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں لاغر بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حالنکہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔

بلوچستان میں انسانی قتل و غارت کا مسلہ امریکی پارلیمان میں بطور قرار داد آ گیا۔ ہمارا ذاتی معاملہ کسی دوسرے ملک کی پارلیان میں آنے کے تین معنی ہیں:

١۔ بلوچستان کی صورت حال بدترین ہو گئی ہے۔

٢۔ بلوچستان کی صورت حال ہماری دسترس میں نہیں رہی۔

٣۔ امریکہ ایران اور چین پر گرفت کے لیے بھیڑیے کا بہانہ بنا کر فوجی کاروائی کا رستہ بنا رہا ہے۔

میری اس گزارش کو ڈینا روہر کے اس بیان کے تناظر میں دیکھیں گے تو معاملہ صاف ہو جاے گا:

امریکہ بلوچ عوام کے قاتلوں کو ہی امداد اور اسلحہ دے رہا۔

صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کو بھی آتے کل کے حوالہ سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے:

ایران کے ساتھ ہیں۔ جارحیت پر امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔

چوکیدار رات کو آوازہ بلند کرتا ہے کہ جاگدے رہنا میرے تے نہ رہنا۔

ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔

ہمیں اپنے معاملات پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا جب بھی مشکل وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ میی بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئی اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس صرف دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ فلاں گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا ہے۔

ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھلا رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پائے۔ بات کا پہلا حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھلانے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔

مردار گوشت دیگ چڑ ھنے کی ایک مثال پچھلے دنوں سننے میں آئ۔ محکمہ ایجوکیشن کے ایک نئے آنے والے ضلعی افسر نے اپنے درجہ چہارم کے ملازم سے کہا بھئی ہمارے آنے کی خوشی میں دعوت وغیرہ کرو۔ اس نے مردہ مرغے دیگ چڑھا دئے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر سچے تھے۔ افسر کے آنے کی خوشی میں دعوت تو ہونی چاہیے۔ درجہ چہارم کا ملازم دیگ کیسے چڑھا سکتا ہے۔ دونوں سرخرو ہوئے۔ دیگ چڑھی افسر کی خوشی پوری ہو گئی ملازم کا خرچہ لون مرچ مصالحے پر اٹھا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا تھا۔

ممبری کے امیدواروں کا بھی غالبا خرچہ لون مرچ مصالحے پر ہی اٹھتا ہے۔ اب تو اس کی بھی شاید نوبت نہیں آئے گی کیونکہ لون مرچ مصالحے کا خرچہ ادھر ہی بارہ کروڑ ادا کر دیا جاءے گا۔

ایران کے حوالہ سے روس کا بیان حوصلہ بخش لگتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو ایران پر حملے کی صورت میں بھرپور جواب ملے گا۔ اس بیان کے اندر چند چیزیں پوشیدہ ہیں:

١۔ جو مرنا جانتے ہیں مارنے میں بھی کم نہیں ہوتے۔ امریکہ نے یہ غلطی کی تو لاشیں اٹھانے میں شاید اسے صدیاں لگ جائیں۔

٢۔ ایران کا ساتھ دیا جائے گا۔

٣۔ غیرت مند مرد ہوتا ہے اور چوہا اس کی دسترس سےکبھی باہر نہیں ہو پاتا۔

ترکی کا کہنا ہے کہ تباہ کن نتائج ہوں گے۔ جنگ ہے ہی تباہی و بربادی کا نام۔ بلوچ غیرت مند قوم ہے۔ بلوچ جانتے ہیں کہ امریکہ ان کے قاتلوں کو امداد اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ افغانی اپنی تباہی کے ذمہ دار سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کو وافر چوری فراہم کرنے کے باوجود لوگوں کے دل میں امریکہ کے لیے نفرت اور صرف نفرت ہے۔ چوری عوام کے پیٹ میں نہیں گئی۔ ان کے پیٹ میں خوشکی کا ڈیرہ ہے۔ خشک آنتیں غصے اور خفگی کا سبب رہتی ہیں۔ خشک آنتوں کا حاصل تباہی اور بربادی کےسوا کچھ نہیں ہوتا ہوتا ہے۔



Similar Threads: