طلسمِ حسنِ سخن سے شجر بناتا ہے
پھر اس کے بعد وہ ان پر ثمر بناتا ہے
وہ باخبر ہے مری ذات کے عناصر سے
وہ چھان کر کے مری خاک، زر بناتا ہے
میں اس کے واسطے اک ریت کا گھروندا ہوں
اِدھر گراتا ہے مجھ کو، اُدھر بناتا ہے
زمیں گھماتا ہے دیکھو وہ اپنی مرضی سے
کہ چاک پر مرے شام و سحر بناتا ہے
جو چشم ہائے غزالاں کو دیکھ لیتا ہے
وہ ایک قطرہ کہاں پھر گہر بناتا ہے
دل اپنی موج میں آئے تو پھر سرِ قرطاس
ہر ایک لفظ کو اک چشمِ تر بناتا ہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks