اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اپنے نوجوانوں کو جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر خطرات سے ٹکرا جاتے ہیں۔ سردار صاحبان کے متعلق تو سنا تھا کہ کام پہلے کرتے ہیں نتیجہ بعد میں سوچتے ہیں لیکن معلوم ہوتاہے کہ یہ عادت اب ہمارے نوجوانوں نے بھی اپنا لی ہے جو ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے لیکن دیار غیر جانے کیلئے ہر نوجوان بیقرار ہے چاہے وہاں جا کربھیک مانگنی پڑے۔ جھاڑو پھیرنا پڑے یا قید ہی کیوں نہ کاٹنی پڑے۔ یہ دھن اسقدر شدید ہے جنہیں قانونی طور پر موقع نہیں ملتا وہ بڑی بڑی رقوم ادا کر کے غیر قانونی طورپر روانہ ہو جاتے ہیں۔راستے کے مصائب سے گھبراتے ہیں نہ پکڑے جانے کے خوف سے نہ راستے میں کسی کی گولی کا نشانہ بننے سے جو اکثر ہو جاتا ہے ۔نہ تو حالات سے سیکھتے ہیں نہ غلط کاموں کے خوفناک نتائج سے۔ اس ساری تمہید کا مقصد اپنے نوجوانوں کی توجہ اس اخباری خبر کی طرف دلانا ہے جو دو دن پہلے شائع ہوئی ہے اور یہ خبر پاکستانی قوم کیلئے افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔
پچھلے چارسالوں میں دنیا کے 47ممالک سے ایک لاکھ 56ہزار 420پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم یا سفری دستاویزات نہ ہونے پر ان ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے اور اکثر کو وہاں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ عرب ریاستوں سے پکڑ کر واپس کئے گئے ہیں جن میں پہلے نمبر پر سعودی عرب ہے جہاں سے 83606 پاکستانی نکالے گئے۔ حج یا عمرہ ویزہ پر گئے اور وہاں جا کر روپوش ہو گئے۔دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے‘ جہاں سے 29960جبکہ عمان سے 22772 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا اور باقیوں کا تعلق دنیا کے دوسرے ممالک سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو وہاں پکڑے گئے۔ جوتا حال روپوش ہیں اُن کی تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔اور تو اور افغانستان شام اور عراق میں بھی پہنچ جاتے ہیںجواس وقت جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ وہاں زیارات کے بہانے جا کر روپوش ہوتے ہیں اور ایران سے تو ہر چند ماہ بعد ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کچھ لوگ غیر قانونی طور پر وہاں پر ایرانی بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں یا پھر بارڈر سیکورٹی فورس کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں لیکن غیر قانونی طور پر وہاں جانے سے باز نہیں آتے۔کچھ سال پہلے افریقہ میں نائیجریا‘صومالیہ اور سوڈان جیسے پسماندہ ممالک میں سے بھی پاکستانی پکڑے گئے تھے۔باہر بھاگنے کی ویسے تو کئی وجوہات ہو سکتی ہیںلیکن اسکی ایک اہم وجہ غربت و افلاس بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہے کم نہیںہوئی۔ لاقانونیت اور دہشت گردی نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے جمہوری رہنمائوں کی لوٹ مار نے پوری کر دی ہے جس وجہ سے لوگ حالات سے تنگ آکر بے بسی کی حالت میں باہر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بہر حال اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا یوں غیر قانونیت کے مرتکب ہونے کی وجہ سے نکالا جانا یقینا باعثِ شرمندگی اور باعثِ ندامت ہے۔ اس سے وطن عزیز کا دنیا میں کیا تاثر لیا جاتا ہے سوچا جا سکتا ہے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ غیر ممالک جا کر انکے تمام معاشی مسائل حل ہو جائینگے جیسے کہ وہاں درختوں پر ڈالر یا ریال لگتے ہوں۔ بس انہیں اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی امید پر یہ لوگ باہر دوڑتے ہیں حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی چلے جاتے ہیں جو ہم سے بھی غریب ہیں یا جہاں لا قانونیت ہم سے بھی زیادہ ہے۔ بعض اوقات تو گھر والے سب کچھ بیچ کر اپنے پیاروں کو ایک بہتر مستقبل کی امید میں باہر بھیجتے ہیں۔ اچھے مستقبل کی خواہش بے شک ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن باہر جا کر یہ لوگ کن مشکلات میں گرفتار ہو جاتے ہیں اس کا انہیں اندازہ نہیں اور یوں بعض اوقات تو انہیں اپنے پیاروں کیلئے زندگی بھر رونا پڑتا ہے۔
مجھے خود تین سال سعودی عرب میں خدمات کا موقع ملا۔ وہاں اپنی مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد میں بطور سیاح شام‘ ترکی اور انگلینڈ بھی گیا۔ مجھے ہر جگہ بہت سے پاکستانی ملے حتیٰ کہ سعودی عرب کے تپتے ریگستانوں میں بھی۔ شام اور ترکی کے گائوں میں بھی۔ مجھے ان سے مل کر یقینا خوشی ہوئی کہ یہ لوگ محنت مزدوری سے اپنے اور اپنے خاندان کیلئے روزی کما رہے تھے۔ ان میں سے اکثر یت جو کافی عرصہ سے وہاں کام کر رہے تھے آسودہ حال بھی تھے اور مطمئن بھی لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو روٹی تک کے محتاج تھے یاکوئی گھٹیا کام کرکے اپنی اور ملک کی بدنامی کا باعث تھے۔ان میں سے کچھ میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم تین پاکستانی آفیسر ز سعودی عرب گئے۔ ہر پاکستانی کی طرح ہم پہلی ہی فرصت میں عمرہ کیلئے گئے۔ حرم شریف میں جا کر ہمارے لیے ایک شاک تھا کہ کچھ پاکستانی خواتین وہاں بھیک مانگ رہی تھیں۔ نئے نئے وہاں گئے تھے ملکی عزت و وقار کا بہت زیادہ احساس تھا۔ یوں ان خواتین کو دیارِ غیر میں اور خصوصاً اس مقدس مقام پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھ کر خون کھول اٹھا لیکن مجبور تھے کہ کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔ بہر حال میرے ساتھی نے ایک خاتون کو سختی سے ڈانٹ کر کہا’’ شرم نہیں آتی کہ تم یہاں بھی آکر انسانوں سے بھیک مانگتی ہو جہاں سے سب انسانوں کو اپنی مرادیں ملتی ہیں‘‘ بعد میں جب حج پر گئے تو وہاں چند افریقی خواتین بھی بھیک مانگتی نظر آئیں لیکن پاکستانی خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی طرح دمشق شہر میں دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی چھوٹے سے بچے کیساتھ بھیک مانگ رہا تھا۔ مجھے شک گزرا کہ یہ پاکستانی ہے۔ میں ایک طرف کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں بچے نے بوڑھے سے کہا ’’ بابا آنکھیں بند رکھو لوگوں کو شک پڑ جائے گا‘‘ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا لیکن بیکار ۔ بعد میں سیدہ زینب کے مزار پر بھی ایک پاکستانی خاتون بھیک مانگتی نظر آئی جس کے متعلق وہاں پڑھنے والے پاکستانی طلباء نے بتایا کہ یہ جسم فروشی بھی کرتی ہے۔لعنت ہو ایسے لوگوں پر !
سعودی عرب میں بہت سے گریجویٹ سڑکوں پرجھاڑو پھیرتے ہوئے اور منڈیوں میں مزدوری کرتے ہوئے ملے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو ادھار لیکر‘ اپنی جائیدادیں یامائوں بہنوں کے زیورات بیچ کر وہاں پہنچے تھے ۔ باعزت گھرانوں سے تعلق تھا لیکن اب روٹی تک کو مجبور تھے۔ سبزی منڈی میں ایک سعودی نے آدھا سیب کھا کر ایک پاکستانی مزدور کی طرف اس طرح پھینکا جس طرح جانور کے سامنے روٹی کا ٹکڑا پھینکا جاتا ہے اور پاکستانی مزدور نے اٹھا کر کھانا شروع کر دیا۔ سعودیوں نے جو گلا سٹرا بیکار فروٹ پھینکا اس میں سے بھی پاکستانی مزدور چن کر کھاتے ہوئے نظر آئے ۔ پاکستانیوں کی یہی حالت دمشق میں دیکھی اور ترکی کے شہر استنبول میںتو ’’سرکہ چہ‘‘ نامی جگہ پر بہت سے غیر قانونی سفر کرنیوالے پاکستانی چھپے تھے۔چوری چھپے محنت مزدوری کر کے ٹماٹر کھا کر گزارہ کرتے کیونکہ ٹماٹر وہاں بہت سستے ہیں۔ایک پاکستانی نے بتایا کہ انہیں ایک کنٹینر میں بند کر کے ایران سے ترکی لے جایا گیا۔ آٹھ پاکستانی دم گھٹنے سے مر گئے۔ زندہ بچنے والا وہ واحد خوش قسمت پاکستانی تھا۔انگلینڈ میں تو باتھ رومز صاف کرتے بھی نظر آئے۔ دو سال پہلے انڈونیشیا کے نزدیک ایک کشتی ڈوب کر تباہ ہوئی تھی جس میں غیر قانونی طور پر سفر کرنیوالے تیس پاکستانی سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ بہر حال واقعات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن اپنے ہموطنوںسے گزارش ہے کہ رزق حلال کیلئے باہر ضرور جائیں لیکن غیر قانونی طور پر قطعاً نہیںاور دوسرا با ہر جا کر ملکی عزت ووقار کا ضرور خیال رکھیں۔
Similar Threads:
Bookmarks