پھول آئے، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
دکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے
ہیں تیز بہت ہوا کے ناخن
خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے
کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی
پتہ نہ سہی، شجر ہی ٹھہرے
اس شہرِ سخن فروشگاں میں
ہم جیسے تو بے ہنر ہی ٹھہرے
ان چکھی اڑان کی بھی قیمت
آخر مرے بال و پر ہی ٹھہرے...
روغن سے چمک اٹھے تو مجھ سے
اچھے مرے بام و در ہی ٹھہرے
کچھ دیر کو آنکھ رنگ چھو لے
تتلی پہ اگر نظر ہی ٹھہرے
وہ شہر میں ہے، یہی بہت ہے
کس نے کہا، میرے گھر ہی ٹھہرے
چاند اس کے نگر میں کیا رکا ہے
تارے بھی تمام ادھر ہی ٹھہرے
ہم خود ہی تھے سوختہ مقدر
ہاں! آپ ستارہ گر ہی ٹھہرے
میرے لیے منتظر ہو وہ بھی
چاہے سرِ رہگزر ہی ٹھہرے
پازیب سے پیار تھا، سو میرے
پاؤں میں سدا بھنور ہی ٹھہرے
پروینؔ شاکر
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے ,,پروینؔ شاکر

Reply With Quote




Bookmarks