کچھ ہے تو حقیقت سے سوا ہو نہیں سکتا
چاہے بھی تو انسان خدا ہو نہیں سکتا
ُتو چاند ہے تاروں کا جہاں تجھ کو مبارک
میں خاک ہوں دھرتی سے جدا ہو نہیں سکتا
ُتو ہے کہ زمانے کو خوشی بانٹ رہا ہے
میں ہوں کہ ترے غم سے رِہا ہو نہیں سکتا
اے درد کی خیرات مجھے بانٹنے والے
کیا کوئی نیا درد عطا ہو نہیں سکتا؟
تسلیم! کہ سائل ہوں گداگر تو نہیں ہوں
کشکول ، مرا دستِ دُعا ہو نہیں سکتا
عاجزؔ مجھے نوچا تھا ہری رُت میں کسی نے
اب کوئی بھی موسم ہو ہرا ہو نہیں سکتا
Similar Threads:
Bookmarks