ڈاکٹر اصغر علی
اس تکلیف دہ بیماری سے بچائو کی تدابیر اور ورزشوں کا تذکرہ ***** ایک اندازے کے مطابق 80فیصد سے بھی زیادہ لوگ اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں کمر درد کاشکار ہو جاتے ہیں ،جو زیادہ تر سرد موسم میں ہوتا ہے۔ یہ کمر درد عام طور پر معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور ایک سے لے کر3 دن تک معمولی آرام اور عام دوائی، درد کش مرہم، ہلکی مالش یا گرمائش سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔یہ درد غیر معمولی کام کی تھکاوٹ، کام کرتے ہوئے کمر کی ہڈی پر جھٹکا، سوتے ہوئے غیر مناسب جسمانی حالت ،کمر سے کپڑے کے ہٹے رہنے کی وجہ سے یاکمر کے مسلسل سردی میں رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایسے درد کا شکار فرد اگر غور کرے، اس کو ان اسباب میں سے اگر کوئی ہو تو یاد آ جاتا ہے اور یہ معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔اگر درد3 دن سے زیادہ رہے یا شروع میں ہی شدید ہو جائے اور وجہ معلوم نہ ہو تو دیکھنا چاہیے کہ درد کے ساتھ ساتھ پیٹ کا کوئی حصہ تو متاثر نہیں پیٹ کو ہاتھ لگانے سے درد تو نہیں ہو رہا۔ ٭ نبض میں کوئی بے ترتیبی، کمزوری، بلڈ پریشر میں کمی یا غیر معمولی جسمانی کمزوری تو نہیں ہے۔ ایسا خون کی نالیوں میں کسی نقص کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ ٭ اگر مریض کی عمر 20سال سے کم ہے اور کمر کی ہڈی پر کوئی سوجن یا چھوتے ہوئے درد کا احساس ہوتا ہے تو یہ کسی بڑی تکلیف کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ٭ اگر عمر40 سال سے کم ہے اور درد آرام کرنے سے بڑھے اور حرکت کرتے ہوئے کم ہو جائے تو ایسا یا کسی ایسی ہی بیماری کے باعث ہو سکتا ہے۔ ٭50 سال کی عمر کے بعد درد کا بغیر کسی وجہ سے ہونا بھی احتیاط کا معاملہ ہے کیونکہ ایسا درد جسم کے کسی عضو کی بیماری کے سبب کمر کی ہڈی تک کے پھیلائو کے باعث ہو سکتا ہے۔ پروسٹیٹ کا کینسر اس کی ایک وجہ ہے۔ ٭عام نوعیت کا درد آرام کرنے سے یا جسم کو کسی خاص پوزیشن پر رکھنے سے کم ہو جاتا ہے، لیکن اگر کسی بھی پہلو سکون نہ ملے تو یہ گردے یا مثانہ میں پتھری کے سبب ہو سکتا ہے۔ ٭رات کو آرام کرتے ہوئے کمر درد کا شروع ہو جانا یا بڑھنا ٹی بی یا کینسر کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ٭درد کا کولہوں تک ہونا یا گھٹنوں یا گھٹنوں سے نیچے تک پھیلنا مہروں کے درمیان Disc کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ٭اگر کسی درد کو3 دن کے آرام اور عام دوائی سے افاقہ نہ ہو تو پیشاب ٹیسٹ، کمر کے ایکسرے اور پیٹ کا الٹراساونڈ کرانا چاہیے۔ خاص حالات میں ایم آر آئی سے درد کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اگر ان تمام باتوں کا جائزہ لے کر اس بات کا ذرا بھی شک ہو کہ یہ درد کسی بڑی بیماری کے باعث ہے تو فوراً کسی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے،لیکن اگر اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ درد پٹھوں کی کھچاوٹ اور کام کی زیادتی وغیرہ سے ہو رہا ہے اور اگر کوئی ماہر اس کی تصدیق بھی کر دے تو بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ کمر درد سے بچائو کی تدابیر ٭کمر سیدھی رکھیں٭کمر گرم رکھیں۔کیوں کہ یہ دوکمر درد سے بچائو کے سنہری اصول ہیں۔ ٭کمر سیدھی رکھیں:کمر درد کے مریض کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا سر اونچا، کندھے اوپر اور سیدھے اور سینہ ابھار کر رکھے۔ اس طرح اس کی پوری کمر سیدھی رہے گی اور درد میں بھی کمی رہے گی۔ اگر اس کی کمر ڈھیلی اور جھکی ہوتو کمر درد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہر حالت میں کوشش کریں کہ کمر سیدھی رہے۔ ٭کمر گرم رکھیں:ہمیشہ لمبی شرٹ ہی استعمال کریں۔ چھوٹی شرٹ اوپر اٹھ جاتی ہے، جس سے کمر کو ہوا لگ جاتی ہے اس سے درد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ رات سوتے وقت بھی لمبی شرٹ استعمال کریں۔ ٭کہاں لیٹنا چاہیے؟کمر درد کے مریض کو زمین پر نہیں لیٹنا چاہیے کیونکہ ایک تو زمین پر مناسب موٹائی کا بستر نہیں بچھایا جاتا اور دوسرے زمین پر لیٹتے اور اٹھتے وقت بھی دقت ہوتی ہے۔ آج کل جو میٹریس والے بیڈ ہیں ان پر لیٹنا چاہیے۔ بیڈ کا میٹر یس اور تختہ ہموار اور ٹوٹا پھوٹا نہیں ہونا چاہیے، پرانے زمانے کی لکڑی کی چارپائی ہموار بھی نہیں ہوتی اور ڈھیلی بھی ہو جاتی ہے۔ لوہے کی ہموار سخت اور موٹے بستر والی چارپائی استعمال کی جا سکتی ہے یا ان پر لکڑی کا تختہ لگا کر میٹریس یا روٹی کا موٹا گدا رکھا جا سکتا ہے۔ بیڈ پر لیٹتے وقت کمر سیدھی رکھ کر گھٹنوں اور کولہوں کو جھکا کر بیڈ پر بیٹھنا چاہیے اور پھر کروٹ کے بل کہنی کی مدد سے لیٹنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے درد کی لہر نہیں اْٹھتی اگر سیدھا لیٹ کر درد کا احساس ہو تو دونوں گھٹنوں کو اوپر اٹھا کر ان کے نیچے چھوٹا تکیہ رکھ لیں یا کوئی کرسی یا میز لے کر اس کے اوپر اپنے پائوں رکھ لیں۔یا کروٹ کے بل لیٹ کر دونوں گھٹنوں کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان چھوٹا تکیہ یا دونوں ہاتھ جوڑ کر رکھ سکتے ہیں اس سے درد میں کمی ہو جاتی ہے۔ بستر پر لیٹنے ہوئے لمبا سوئیٹر وغیرہ تکیہ کے نیچے رکھ لیں اور صبح یا کسی بھی وقت اٹھتے ہوئے فوراً پہن لیں تا کہ کمر ایک دم ٹھنڈی نہ ہو۔ بستر سے اٹھ کر چند منٹ تک کمرے کے گرم ماحول میں چہل قدمی کریں۔ بستر سے اٹھنے کا طریقہ بھی بستر پر لیٹنے جیسا ہی ہونا چاہیے۔ بیٹھنے کے لیے آفس چیئر کا استعمال کریں اور پیچھے ہو کر بیٹھیں تا کہ کمر سیدھی رہے اور اس کو سہارا ملا رہے۔ اٹھتے بیٹھتے ہر حالت میں کمر سیدھی رکھیں اور گھٹنوں اور کولہے کے جوڑ استعمال کریں۔ میز یا زمین سے کوئی چیز اٹھاتے ہوئے اپنا ایک پائوں آگے کر لیں اور کمر سیدھی رکھ کر ویسے ہی گھٹنوں اور کولہوں کے بل ایک ہاتھ سے کسی میز وغیرہ کا سہارا لے کر جھکیں۔ باتھ روم میں اپنے آپ کو سردی سے بچائیں۔ باتھ روم جانے سے پہلے باتھ روم کے روشندان بند کر لیں۔ اگر زیادہ ٹھنڈک ہے تو باتھ روم ہیٹر وغیرہ لگا کر گرم کر لیں۔ بیسن پر کھڑے ہو کر منہ ہاتھ دھوتے، برش کرتے وقت احتیاط کریں۔ بہتر ہے کہ ایک ہاتھ بیسن پر رکھیں یا گھٹنوں کو ذرا خم دے لیں، وضو کرنے کے لیے سٹول یا چوکی کا استعمال کریں۔ ٭نیم گرم پانی سے نہائیں:اگر آپ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں تو اپنے جسم کا وزن اپنے دونوں پائوں اور ہاتھوں پر رکھیں۔ دونوں گھٹنوں کو پٹرول کی ٹینکی سے چپکا لیں موٹر سائیکل کی سیٹ پر بہت کم وزن ڈالیں اپنے سر کو آگے کی طرف جھکا لیں جیسے ریس کے گھوڑے کودوڑاتے ہوئے اس کا جیکی کرتا ہے۔ اس سے کمر پردبائوبھی نہیں پڑتا اور ہوا کی مزاحمت بھی کم ہوتی ہے۔ سپیڈ بریکر اور گڑھوں سے گزرتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کمر درد کا مریض موٹر سائیکل کی پچھلی سواری ہے تو اس کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ موٹر گاڑی کی سیٹ ہموار اور آرام دہ ہونی چاہیے۔ گاڑی ویگن یا رکشہ میں سفر کرتے ہوئے ہمیشہ کمر سیدھی رکھ کر آگے جھک کر بیٹھیں اور کسی سہارے کو پکڑ لیں۔ہر انسان کو اپنی عمر کے مطابق ورزش ضرور کرنی چاہیے۔ دنیا میں اس وقت ورزش کے بہت سارے طریقے موجود ہیں۔ نماز کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ پورے جسم کی ایک ایسی ورزش ہے۔ جو ایک بچے سے لے کر انسان کی ہر عمر کے لیے ضروری ہے۔ بتائے گئے مناسب طریقے سے وضو، قیام، رکوع، سجود اور قعود اگر مکمل ذہنی یکسوئی کے ساتھ کیا جائے تو یہ یوگا اور ورزش کا بہترین امتزاج ہے۔ نماز کی ہر کیفیت میں اپنے جسم کو متوازن رکھنا اور سلام پھیرتے ہوئے کندھے، گردن اور کمر کو سیدھا رکھ کر ایسے سلام پھیرنا کہ نظر کندھے پر ہو۔ سارے جسم کی بہترین ورزش ہے، لیکن شدید درد کی حالت میں اگر نماز پڑھتے ہوئے مریض کو تکلیف ہو تواجازت ہے کہ وہ آفس چیئر پر بیٹھ کر اشاروں کے ساتھ نماز ادا کرے۔ کمر درد کے مریض کو اپنا وزن ،عمر اور قدکے مطابق رکھنا بہت ضروری ہے۔18 سال کی عمر میں انسان کاجو وزن ہوتا ہے، اسے اٹھانے کے لیے اس وقت اس کی ہڈیاں بہت مضبوط ہوتی ہیں ،لیکن 40سال کی عمر میں انسان کی ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں اور انسان اس پر چربی اور بافتوں کا کتنا ہی وزن ڈال دیتا ہے۔ اس لیے زیادہ وزن والے مریضوں کی ہڈیاں زیادہ ہی احتجاج کرتی ہیں۔ اس لیے اپنے وزن کو کنٹرول کریں۔ ٭پیٹ چھوٹا کریں:ایک عام کلیہ ہے کہ اگر کسی انسان کا پیٹ اس کے سینے سے 4انچ چوٹا ہے ،تووہ صحت مند ہے۔اگر کسی انسان کا پیٹ اس کے سینے سے بڑھا ہوا ہے۔ اتنا ہی اس کو شوگر، بلڈپریشر اور کمر درد کی تکالیف کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔ بڑھا ہوا پیٹ جب اس کے جسم سے آگے کو لٹکتا ہے تو اس کا سارا وزن ہر وقت اس کی کمر کی ہڈی پر پڑتا ہے۔ جس سے وہ کمر درد کا شکار بھی ہو جاتا ہے تو آرام بھی مشکل سے آتا ہے۔ اس لیے کمر کا سینے سے چھوٹا رہنا بہت ضروری ہے۔ کمر درد کا علاج کمر درد شروع ہوتے ہی اگر مریض کوئی درد کش گولی کھا لے، زمین پر فوم بچھا کر یا بیڈ پر الٹا لیٹ جائے اور کسی مدد گار سے (جو اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑ کر گرم کرنے کے بعد) زیتوں کے تیل کی مالش کرے یا کوئی درد کش مرہم لگوائے یا مناسب گرمائش والی ربڑ کی پانی کی گرم بوتل کپڑے میں لپیٹ کر کمر کو گرمائش دے تو اکثر اوقات ان تدابیر سے ہی درد ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن اس کو اس کے بعد بھی ساری احتیاطی تدابیر اور کمر کی بتائی گئی ساری یا چند ایک ورزشیں کرنی چاہئیں ہم کمر درد کی صرف وہی ورزش بتا رہے ہیں، جو آسانی سے ہو جاتی ہے اور اکثر اتنی ورزش ہی کافی ہو سکتی ہے۔ کمر درد کی ورزشیں کمر درد کی ورزشیں زمین پر روئی کا گدا یا پتلا ہموار فوم بچھا کر کرنی چاہیے۔ ورزش سے پہلے کمر کی ہلکی مالش کر کے اس کو گرم کر لیں زیتون کا تیل استعمال کر سکتے ہیں۔ ورزش نمبر۱: زمین پر روئی کاگدا یا فوم بچھا لیں دونوں گھٹنوں کو اکٹھا کر کے پائوں اپنے جسم کے نزدیک رکھ لیں دونوں ہاتھوں سے ایک گھٹنے کو پکڑ کر اپنے پیٹ کی طرف زور سے کھینچئے۔ چند سیکنڈ کے بعد اس گھٹنے کو واپس کر کے دوسرے گھٹنے کو بھی ایسے ہی اپنے پیٹ کی طرف کھینچیں۔ کسی مددگار کی مدد سے بھی جو گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر پیٹ کی طرف دبائے، فائدہ ہوتا ہے۔ 5یا10 بار کریں۔ اس طرح پٹھے نرم اور درد میں افاقہ ہوتا ہے۔ ورزش نمبر۲: پہلی ورزش کی طرح گھٹنوں کو اکٹھا کر کے پائوں جسم کی طرف لائیں اور پھر دونوں ہاتھوں کی مدد سے کمر کو اس طرح زمین سے اٹھائیں کہ دونوں پائوں، کہنیاں، سینہ کا اوپری حصہ گردن اور سر زمین پر رہیں چند سیکنڈ بعد کمر کو واپس زمین پر رکھ لیں۔ یہ ورزش بھی 5یا10بار کریں۔ ورزش نمبر۳: زمین پر سیدھے لیٹ کر پہلی ورزشوں کی طرح دونوں گھٹنوں کو آپس میں ملا کر پائوں اپنے جسم کی طرف لے آئیں دونوں بازو جسم کے ساتھ ملا کر ہتھیلیاں زمین پر رکھ دیں۔ اب دونوں گھٹنوں کو ملا کر بغیر پائوں اٹھائے پنڈولم کی طرح 5یا10 بار دائیں بائیں حرکت دیں۔ یہ چند ایک مشورے ہیں ،جو میں اپنے مریضوں کو اپنے چھوٹے سے کلینک میں دیتا ہوں۔ اکثریت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks