فاتح شاہین اگلے پڑاؤکی جانب رواں دواں


منصور علی بیگ
مصباح الحق کی حمایت پروفیسرکے کام آگئی ، نہ چاہتے ہوئے بھی معین خان کو کامیاب قائدکی بات تسلیم کرنا پڑی ********* کپتان اور سلیکشن کمیٹی میں کہیں نہ کہیں رائے کا اختلاف موجود ہے جس کی شدت کامیابی تلے دب گئی ********* پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے آسٹریلین ٹیم کو خاک چٹانے والے سرفہرست 16کھلاڑیوں کو آج سے ابوظہبی میں نیوزی لینڈ کیخلاف شروع ہونے والی سیریز کیلئے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔بظاہر تو یہ ایک روایتی سا فیصلہ ہے کیونکہ جیتی ہوئی ٹیم میں عام طور پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی خاص کر اس وقت جب دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں گیارہ کھلاڑی ہی استعمال کئے جائیں اور پانچ اپنے چانس کے انتظار میں کسی کے آؤٹ آف فارم یا انجرڈ ہونے کی امید لگائے بیٹھے ہوں لیکن اس تبدیلی نہ ہونے کے پیچھے بھی کچھ عوامل کارفرما رہے ورنہ موجودہ اسکواڈ میں کم از کم دو تبدیلیاں تو ممکن ہو چکی تھیںجن کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا کیونکہ ان کا تعلق بھی براہ راست سلیکشن کمیٹی اور اس کے چیف معین خان کے علاوہ کپتان مصباح الحق سے بھی ہے۔کیویز کیخلاف قومی ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹر معین خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسکواڈ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ اس حقیقت کے پیش نظر کیا ہے کہ ٹیم میں استحکام اور تسلسل کی تعمیر ہوتی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کیخلاف پاکستانی ٹیم کی کامیابیوں پر بے پناہ فخر ہے کیونکہ یہ ایک یادگار اور تاریخی کارنامہ تھا مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کینگروز کیخلاف شاندار فتح کو فی الوقت پس پشت ڈالتے ہوئے نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز پر مکمل توجہ مرکوز کرلی جائے کیونکہ یہ ایک مختلف ٹیم سے مقابلہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک تازہ آغاز ہے جس کیلئے کھلاڑیوں کو ایک بار پھر کامیابی کے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔چیف سلیکٹر نے واضح کیا کہ ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کر کے انہوں نے فیصلوں کا تسلسل ہی یقینی نہیں بنایا بلکہ اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ موجودہ ٹیم مزید استحکام حاصل کرے اور اس کا کامبی نیشن اور باہمی اتحاد بھی مثالی ہو جائے۔ان کی بات جہاں حوصلہ افزاء ہے وہاں حد سے زیادہ اعتماد کی نشاندہی بھی کر رہی ہے اور پاکستانی کھلاڑیوں کو اس منفی تاثر کو دور کرتے ہوئے اپنی شاندار کارکردگی کا تسلسل جاری رکھنا ہوگا۔ قومی ٹیم کی مینجمنٹ نے آسٹریلیا کو دبئی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں بھی بڑے فرق سے زیر کرنے کے بعد اپنا اسکواڈ برقرار رکھا تھا اور متحدہ عرب امارات میں موجود شان مسعود،توفیق عمر ،احسان عادل، حارث سہیل اور محمد طلحہٰ کو اپنی نشستیں گرم کرنے کے سوا کوئی موقع نہیں مل سکا اور لگتا یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کیخلاف کم از کم پہلے ٹیسٹ میں بھی کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ابوظہبی میں جن گیارہنے کینگروز کو کھڑے قد سے زمین بوس کیا ان میں سے بیشتر نے کسی نہ کسی موقع پر اپنی اہمیت ثابت کی۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ قومی سلیکشن کمیٹی نیوزی لینڈ کیخلاف اسکواڈ میں آل راؤنڈر محمد حفیظ کی شمولیت کے حق میں نہیں تھی جنہوں نے آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں صفر کے ساتھ اپنی مہم جوئی شروع کی مگر انہوں نے ابوظہبی میں دوسرا ٹیسٹ قدرے بہتری کے ساتھ کھیلا اور پہلی اننگز میں 45رنز بنانے کے ساتھ ہی انہوں نے میچ میں تین اہم وکٹیں بھی حاصل کیں اور ریگولر اسپن بالرز ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کا ساتھ نبھایا۔تین اننگز میں 48رنز اور چار وکٹوں کے مالک بیٹسمین کو سلیکشن کمیٹی اسکواڈ سے باہر کرنا چاہتی تھی لیکن ماضی کی طرح ایک بار پھر کپتان مصباح الحق کی حمایت پروفیسرکے کام آگئی اور معین خان کو دل نہ چاہتے ہوئے بھی کامیاب قائدکی یہ بات تسلیم کرنا پڑی کیونکہ وہ یونس خان تنازعکے بعد کافی محتاط ہو چکے ہیں جہاں انہیں شکست فاش ہوئی اور انہیں کڑی تنقید کے بعد اس بات کی وضاحت بھی کرنا پڑی کہ یونس خان کو انہوں نے صرف آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے اسکواڈ سے ڈراپ کیا تھا لیکن وہ ان کی ٹیسٹ کرکٹ کیلئے منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ قومی ٹیم کا اعلان ہونے سے پہلے یہ خبریں بھی گرم تھیں کہ بائیں ہاتھ کے فاسٹ بالر وہاب ریاض کی انجری سے نجات کے بعد کیویز کیخلاف واپسی کا امکان تھا لیکن قسمت کی خرابی کہ نیشنل بینک کی جانب سے کراچی ڈولفنز کیخلاف میچ سے قبل بائیں ہاتھ کے پیسر کی گردن میں بل پڑ گیا اور وہ میدان میں اترنے سے بھی محروم رہے یوں سلیکشن کمیٹی کو ایک ممکنہ تبدیلی کرنے کا بھی موقع نہیں مل سکا جس کے نتیجے میں محمد طلحہٰ یا احسان عادل کو گھر واپسی کیلئے سامان باندھنا پڑ سکتا تھا۔محمد حفیظ کی قومی ٹیم میں موجودگی کا اب تما م تر انحصار اس بات پر ہے کہ وہ نیوزی لینڈ کیخلاف ابوظہبی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں کیا کارنامہ دکھاتے ہیں کیونکہ اس معرکے میں ناکامی انہیں سیریز سے باہر کر کے ان کی جگہ توفیق عمر کو حتمی الیون میں جگہ دلا سکتی ہے جو سلیکشن کمیٹی کے خیال میں نیوز ی لینڈ کیخلاف سیریز کیلئے ایک مضبوط امیدوار تھے۔کچھ بھی ہو اس معمولی سی تبدیلی جو کہ نہیں ہو سکی اس بات کو پھر واضح کر دیا ہے کہ کپتان اور ٹیم انتظامیہ کے علاوہ سلیکشن کمیٹی کیاراکین میں کہیں نہ کہیں رائے کا اختلاف موجود ہے جس کی شدت کامیابی تلے دب گئی ہے مگر یہ کسی بھی وقت مخالف حالات میں سر اٹھا سکتی ہے اور ٹیم کے استحکام اور فیصلوں کے تسلسل جیسے دعوے لمحہ بھر میں ہوا بھی ہو سکتے ہیں۔معین خان نے یونس خان سے متعلق اپنے وضاحتی بیان میں ایک بار بھی اس پہلو کی وضاحت نہیں کہ انہیں موجودہ فارم کے ساتھ ورلڈ کپ کیلئے قابل غور سمجھا جائے گا یا نہیں لیکن ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ یونس خان کی ورلڈ کپ کے ممکنہ اسکواڈ میں شمولیت کو روکنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ ہمارا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ اسکواڈ میں کوئی تبدیلی نہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ کامیابی کے بعد اس کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن نیوز ی لینڈ کیخلاف ایک نئی سیریز میں قدرے مختلف سوچ کے ساتھ میدان سنبھالنے کی ضرورت بہر حال ہے کیونکہ کیوی ٹیم آسٹریلیا جیسی مضبوط نہ ہو لیکن کئی اعتبار سے مختلف ضرور ہے جس کیخلاف ذرا سی بھی کاہلی پاکستانی ٹیم کی حالیہ کامیابیوں کو خاک میں بھی ملا سکتی ہے۔ قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس بھی کھلاڑیوں کو یہ ہدایت کر چکے ہیں کہ انہیں حالیہ کامیابیوں کے بعد سہل پسندی کا شکار ہونے کے بجائے نئے سرے سے محنت کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان اب تک جو پچاس ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ہیں ان میں قومی ٹیم نے 23 مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے، سات مرتبہ شکست کا سامنا کیا جبکہ بیس ٹیسٹ میچوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کہاجا سکتا ہے کہ گرین شرٹس کو کیویز پر واضح برتری حاصل ہے جو اپنے پسندیدہ ماحول میں ایک بار پھر وہی کارکردگی دکھا سکتے ہیں جس کا مظاہرہ کینگروز کیخلاف کیا گیا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی ٹیم امارات میں مختلف ممالک کیخلاف9سیریز کھیلنے کے باوجود نیوزی لینڈ کیخلافصحراؤںمیں ابھی تک کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں کھیل سکی ہے اور یہ بات بھی پاکستان کے حق میں جاتی ہے کہ جب تک کیوی ٹیم کے کھلاڑی خود کو موسم ،ماحول اور وکٹوں سے ہم آہنگ کریں گے اس وقت تک سیریز کا فیصلہ ہو چکا ہوگا لیکن یہ محض ایک خیال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ برینڈن میک کلم ،کین ولیمسن اور راس ٹیلر کو ایشیائی ماحول میں کھیلنے کا اچھا تجربہ حاصل ہے جنہیں ٹام لیتھم اور ہمیش ردرفورڈ کی جانب سے سہارا مل گیا تو ان کیلئے ایک اچھا اسکور بنانا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔پاکستان کیلئے ممکن ہے کہ کیوی اسپنرز ایش سوڈھی اور مارک کریگ زیادہ مسائل نہ کھڑے کر سکیں لیکن یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ نیوزی لینڈ کا پیس اٹیک ایسے بالرز پر مشتمل ہے جو کسی بھی قسم کی کنڈیشنز میں حریف بیٹسمینوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ٹرینٹ بولٹ،ڈگ بریسویل، ٹم ساؤتھی، کورے اینڈرسن اور نیل ویگنر جیسے پانچ پیسرز میں سے کوئی بھی تین ایک میچ میں لازمی موجود ہوں گے کیونکہ ان میں سے اینڈرسن اور ساؤتھی کا شمار آل راؤنڈرز میں کیا جاتا ہے جبکہ کیوی ٹیم کے دونوں وکٹ کیپرز لیوک رونچی اور بریڈلے جان واٹلنگ بھی بیٹنگ کے شعبے میں مہارت کے حامل ہیں لہٰذا پاکستانی بالنگ کو ان کیخلاف اپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تو بیٹسمینوں کو بھی اپنی وہی فارم درکار ہو گی جس کا سامنا کینگرو بالرز کو کرنا پڑا۔کاغذ پر دیکھا جائے تو پاکستان کا پلہ بھاری نظر آتا ہے لیکن حد سے زیادہ اعتماد سے گریز کرتے ہوئے قومی ٹیم کو ایک بار پھر سو فیصدی کھیل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ یہ ایک نئی سیریز ہی نہیں تازہ آغاز بھی اور اس کے نتائج کا اثر براہ راست ورلڈ کپ کی تیاریوں پر بھی پڑے گا۔ ٭٭٭٭


Similar Threads: