google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: علامہ اقبال اور نوجوانان ملت

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      علامہ اقبال اور نوجوانان ملت


      علامہ اقبال اور نوجوانان ملت

      ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

      حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال جوانانِ ملت کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے، جاوید کے نام پند ونصیحت کو، وہ سخنے بہ نژادِ نو قرار دے کر پیش کرتے ہیں ********* آج کامسلم نوجوان اسلام کے حیات بخش اور جاں فزا پیغام کی بدولت ہر طرح کے ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ ہے ، اقبال کی شاعری میں اس نوجوان کی قوت عمل کے لیے ایک مہمیز ہے ********* علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے حسب ضرورت اور حسب ِموقع معاشرے کے مختلف طبقوںکواوربعض اوقات مختلف افراد کوخطاب کیا ہے،لیکن کلا م ِاقبال کا مجموعی مطالعہ ظاہرکرتاہے کہ ان کا خطاب سب سے زیادہ نوجوان طبقے سے ہے اور خاص طور پر وہ نوجوانان ملت کو اپنامخاطب بناتے ہیں۔انھوں نے مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرکے انھیں عرفانِ نفس اور شعورِ ذات کا درس دیا۔ بالفاظِ دیگر ان کے اندر احساسِ خودی پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھیں مسلمانوں کے شاندار ماضی، آبا و اجداد کی شان و شوکت اور تاریخِ اسلامی کی عظمت سے روشناس کرایا، دورِ حاضر کے پُر آشوب اور عبرت خیز حالات کا درد ناک نقشہ کھینچا اور پھر ان کے دل میں احیائے دین و ملت کی تمنا بیدار کرکے انھیں ایک ولولۂ تازہ عطا کیا ہے۔ اقبال نے نوجوانانِ ملت سے مکالمہ کرتے ہوئے خاصاحکیمانہ انداز اختیار کیا ہے۔ بعض نظموں میں تو وہ براہِ راست نوجوانوں سے مخاطب ہیں، جیسے طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام یا خطاب بہ نوجوانانِ اسلام یا ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام وغیرہ۔ ابتدائی دور کی نظم عبدالقادر کے نام بظاہر فردِ واحد کے نام ہے، لیکن فی الحقیقت اس نظم کے حوالے سے، اقبال نے اپنے عزیز دوست شیخ عبدالقادر کی معرفت نوجوانوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم سب سے پہلے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ زمانی اعتبار سے یہ پہلی نظم ہے، جس میں شاعر کے پُرجوش اور ولولہ انگیز خیالات کا اظہار ملتا ہے۔ شیخ عبدالقادر اقبال کے قریبی اور گہرے دوست تھے۔ ہندوستان کے ادبی حلقوں تک اقبال کا نام اور کلام پہنچانے میں شیخ صاحب کے رسالے مخزن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھی کی تجویز اور اصرار پر اقبال نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان کے لیے رختِ سفر باندھا، پھر قیام یورپ کے دوران میں جب انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ کیا، تو یہ شیخ صاحب ہی تھے جن کے حسن ِ تدبیر سے اقبال ترکِ شعر سے باز رہے۔ اقبال کو شیخ عبدالقادر کے ذوق و ذہن ، ملت اور قوم کے لیے ان کے پُرخلوص جذبات، ان کی درد مندانہ سوچ اور خیر خواہانہ مساعی کا بخوبی احساس تھا، اسی لیے انھوں نے بطور خاص شیخ صاحب کو مخاطب کیا: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اُجالا کر دیں قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوںنے اپنے ہم مزاج اور ہم عمر شیخ عبدالقادر ہی کو خطاب کے لائق سمجھا ،مگر اُن کے توسّط سے یہ خطاب، اُس دور کے تمام درد مند اور صاحب ِ احساس نوجوانوں سے تھا۔ اقبال جب شعلہ نوائی سے اُجالا کرنے قیس کو آرزو ئے نو سے شناسا کرنے یا بزم گہِ عالم کو منور کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان، جس کا سینہ بلند عزائم سے پُرہے اور پختہ ارادوں ، اُمنگوں اور ولولوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ اپنی لگن اور حرارت، اپنے سوز و گداز اور اپنے جوش و حرارت سے محفل کو تہ و بالا کرتے ہوئے زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے کا خواہاں ہے۔ بقول غلام رسول مہر: قوم کی عملی خدمت کے لیے کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان تھا۔ خطاب بہ جوانانِ اسلام اس سلسلے کی ایک اور اہم نظم ہے۔ اس کا زمانہ ذرا بعد کا ہے، اسی لیے اس کے لہجے اور آہنگ میں مذکورہ بالا نظم کا سا جوش و خروش نہیں، اس کے بجائے اس میں تفکر اور سوچ بچار کا انداز غالب ہے۔ فرماتے ہیں : کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا چند اشعار کی اس نظم میں علامہ نے بطور پس منظر، ملتِ اسلامیہ کے شاندار اور سنہرے ماضی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں خاص طور پر قرنِ اوّل کے مسلمانوں کی طرف بعض بلیغ اشارات کے ذریعے، انھوں نے امّتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔قابل غور بات ہے کہ اس میں خطاب، نوجوان مسلم سے ہے۔ علامہ نے کوشش کی کہ نوجوان مسلم کے دل میں اس کے حقیقی مقام و مرتبے کا شعور پیدا کرکے اسے بتایا جائے کہ اس مقام اور مرتبے کے کھو جانے کی وجوہ کیا ہیں۔ نظم کے ایک مصرعے (کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت ، وہ سیارا) میں نہایت کفایت لفظی سے اس تضاد کی طرف توجہ دلائی ہے، جو قرنِ اوّل اور دورِ حاضر کے مسلم نوجوانوں کے کردار میں نظر آتا ہے۔ یہ مصرع ایک آئینہ ہے جس سے آج کے نوجوانوں کے ہاں بے عملی، تساہل، غفلت، لاپروائی، غیر ذمہ داری اور ایک مجموعی جمود کی کیفیت صاف اور صریح طور پر نظر آ رہی ہے۔ اقبال کا زمانہ ، برطانوی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا، چنانچہ وہ غلامی کے اس ماحول میں پلے بڑھے اس لیے نوجوانوں کی کمزوریوں ( کہ تو گفتار، وہ کردار۔۔۔ ) سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی متعدد نظموں، مثلاً جاوید کے نام،طلبہ علی گڑھ کالج کے نام، ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے ناماور سخنے بہ نژادِنومیں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ، یہ نظمیں ، نژادِ نو کے بارے میں اقبال کی امیدوں، آرزوں اور ولولوں کا خوب صورت اظہار بھی ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں سخنے بہ نژادِ نو اس اعتبار سے ایک اہم نظم ہے کہ دور آخرکی اس طویل نظم میں علامہ نے نئی نسل کے بارے میں اپنے احساسات کو بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے۔ نژادِ نو کی چند کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں کہ یہ بڑی افسوس ناک صورت ِحال ہے کہ : نوجواناں تشنہ لب، خالی ایاغ شستہ رو، تاریک جاں، روشن دماغ کم نگہ و بے یقین و نااُمید چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید ایک ماہر طبیب کی طرح، علامہ کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہے اور وہ نئی نسل کے امراض کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی و بے اعتمادی اور ریب و تشکیک کا شکار ہے۔ خودی سے محروم ہے، اس لیے اپنی ذات پر بھروسا نہیں ہے اور چونکہ خودشناس نہیں، اس لیے خدا شناسی کی نعمت بھی حاصل نہیں۔ وہ اپنے ماضی کا عرفان رکھتا ہے، نہ اسے اپنے حال کی خبر ہے اور نہ مستقبل پر یقین ہے۔ علامہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی نوع انسان کے لیے ایک مہلک مرض ہے اور ذوقِ یقین سے محروم شخص کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوتی ہے: ع غلامی سے بتر ہے بے یقینی نژادِ نو کو اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے ، اقبال سب سے پہلے اسے لاالہ کا درس دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اے پسر! ذوقِ نگہ ازمن بگیر سوختن در لا اِلَہ از من بگیر لا اِلٰہَ الاّ اللہ ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے ،جو بنی نوع انسان اور خاص طور پر نژاد نو کی بے یقینی ، بے اعتمادی، فکر و نظر کی لغزشوں اور کردار کی جملہ کمزوریوں کا تیر بہدف علاج ہے۔ بتانِ وہم و گماں اس سے شفا یاب اور سودو زیاں کے مغالطے، لا اِلٰہَ الاّ اللہ سے بے نقاب ہوتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں: اے عزیز انِ من، لا الٰہِ کو فقط دو حرف نہ سمجھو، یہ ایک تیغِ بے زنہار ہے اور یہ دو حرف ضربِ کاری کی سی قوت کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، قرآن سے وابستگی کو نئی نسل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ سخنے بہ نژادِ نو میں وہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اُمت ِ مسلمہ، صاحبِ قرآن ہونے کے باوجود ذوق طلب سے محروم ہے۔ نوجوانوں کو ان کی تلقین یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم سے دِلی وابستگی پیدا کریں کیوں کہ یہی ذریعہ ہے استحکامِ خودی ، ذوقِ طلب، یقین و اعتماد اور جذبِ اندروں کے حصول کااور ہماری فوز و فلاح ، دنیاوی کامرانی اور اُخروی نجات قرآن پر عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ سو خرابیوں کی ایک خرابی تو یہ ہے کہ مکتب کی تعلیم نے نوجوانوں کی فطرت کو مسخ کردیا ہے: نور فطرت را زجاں ہا پاک شست یک گلِ رعنا ز شاخ او نرست اقبال کہتے ہیں کہ حقیقی علم فقط کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا،اس کے لیے کسی صاحب نظر کی طرف رجوع ضروری ہے: ع : ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں علامہ ، اپنی اس بے مثال نظم میں نئی نسل کو حسب ِذیل نصیحتیں بھی کرتے ہیں: ۱۔ عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔ ۲۔ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔ ۳۔ احکام ِالہٰی کو اپنی گرہ میں باندھ لو۔ ۴۔ اپنے قلب سے روشنی حاصل کرو۔ ۵۔ ضبط نفس سے اپنی جوانی کی حفاظت کرو۔ ۶۔ اور فقر و درویشی کو اپنی زندگی کا عنوان (motto) بناؤ۔ فقر و درویشی کے ضمن میں علامہ اقبال نے شاہین کو ایک مثالی پرندے کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاہین مسلم نوجوان کے لیے ایک استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اقبال نئی نسل میں فقر، درویشی ، قناعت، استغنا، خودداری، اور بلند پروازی کی صفات دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ صفات اس وقت تک نوجوانوں کے اندر پیدا اور راسخ نہیں ہوسکتیں، جب تک وہ سخت کوشی کو اپنی زندگی کا شعار نہ بنائیں: ع سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں مختصر یہ کہ یہ نظم اقبال کے مثالی نوجوان کا ایک نہایت عمدہ خاکہ پیش کرتی ہے۔ اُوپر ذکر ہوا ہے کہ علامہ اقبال نئی تعلیم کو نوجوانوں کے حق میں زہر ِہلاہل سمجھتے تھے: ع لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر کیونکہ یہ تعلیم اسے عقل پرستی اور مادّیت و لادینیت کا اسیر بناتی ہے۔اقبال جدید دور کی مادیت کو نوجوانانِ ملت کے لیے بہت بڑا فتنہ سمجھتے تھے۔1931ء میں انگلستان میں نوجوانوں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے محفوظ رہیں۔ اہل ِیورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مذہب و حکومت کو علاحدہ علاحدہ کردیا۔ اس طرح ان کی تہذیب روح اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رُخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال جوانانِ ملت کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ جاوید کے نام پند ونصیحت کو، وہ سخنے بہ نژادِ نو قرار دے کر پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل انھیں جاوید ہی کی طرح عزیز تھی اور وہ اپنی اولاد کی طرح ہی اس کے خیر خواہ تھے۔ چنانچہ پند و نصائح کے ساتھ ساتھ، اقبال ہمیشہ ان کے لیے دعا گو بھی رہے۔ 29نومبر 1929ء کو وہ علی گڑھ میں تھے۔ یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے ان کے اعزاز میں جلسہ منعقد کرکے، انھیں یونین کی آنریری لائف ممبر شپ دی اور ایک سپاس نامہ پیش کیا تو جوابی تقریر میں فرمایا: گزشتہ چند سال سے میں صرف جسد خاکی کا مالک ہوں۔ میری روح ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک زندہ ہوں وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی۔ اکبر الہٰ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوت عمل مفقود ہے۔ ہاں، یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خدا داد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے، جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں۔ اس اضطراب اور خدمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جوانانِ ملت کی تنظیم و تربیت کے متمنی تھے۔ 21 مارچ1932ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ،انھوں نے تنظیماتِ نوجوانان (Young Leagues) قائم کرنے کی تجویز پیش کی ،جو ایک مرکزی تنظیم کے تحت سماجی خدمت، نا مطلوب رسوم و رواج کی اصلاح اور معاشرے کے اقتصادی فلاح و بہبود کے کام انجام دے۔(Speeches،41) مولانا راغب احسن نے 1931ء میں آل انڈیا یوتھ لیگ قائم کی تو انھیں ، جمعیت کو زیادہ فعال اور منظم بنانے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا: مقصد صرف تربیت ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ڈسپلن۔ تربیت سے مراد وہ طریق ہے جس سے مسلمان نوجوانوں میں دینی حرارت پیدا ہو۔ جوانانِ ملت کے لیے اقبال کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کا کچھ ذکر، ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ بال ِجبریل کی نظم ساقی نامہ میں کہتے ہیں: جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں مرے نالۂ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری، آرزوئیں مری امیدیں مری، جستجوئیں مری مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے سوال یہ ہے کہ یہ اضطراب ، حضرت علامہ نوجوانوں ہی کو کیوں منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ امت مسلمہ کے عمر رسیدہ و آزمودہ کار اور جہاں دیدہ اصحاب کی بجائے انھوں نے نوجوانوں کا انتخاب کیوں کیا؟ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ جوانوں کو پیروں کا استاد کر تو اس کا حقیقی محرک کیا تھا؟ ہمارے خیال میں، پیروں اور بزرگوں کی تمام تر فہم و دانش ، طویل زندگی کے تجربات اور بزرگی کے باوجود، جوانوں کو اُن پر ترجیح کا سبب غالباً یہ تھا کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں دعوتِ حق کی پکار پر لبیک کہنے والوں میں نوجوان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حق و باطل کی پیکار میں انھوں نے ہر طرح کے سودوزیاں سے بے نیاز ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ یہ حقیقت معرکۂ فرعون و کلیم سے آنحضورؐ کے دور تک اسلام اور جاہلیت کی کشمکش میں ہمیشہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ(ترجمہ) : (پھر دیکھو کہ) موسیٰ کو اس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ (سورہ یونس10: 83) گویا اس پر آشوب اور پر خطر زمانے میں جب فرعون اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، حق کا ساتھ دینے اور حضرت موسیٰ کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرات فقط چند لڑکوں نے کی۔ قوم موسیٰ ؑ کے عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوشی اور عافیت پرستی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ نہ صرف یہ کہ وہ خود حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ نوجوانوں کو بھی موسیٰ کی پیروی سے روکتے رہے تاکہ وہ فرعون کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ سرزمین عرب میں آنحضورؐ نے دعوت حق پیش کی تو آپ پر ایمان لانے والوں میں بڑے بوڑھوں اور سن رسیدہ لوگوں کی بجائے اولیت کا شرف بھی نوجوانوں کو حاصل ہوا، ان باہمت نوجوانوں کی عمریں قبول اسلام کے وقت اس طرح تھیں: ۱۔ بیس سال سے کم عمر: علی ابن ابی طالبؓ، جعفر بن طیارؓ، زبیرؓ ، طلحہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، مصعب بن عمیرؓ، عبداللہ بن مسعودؓ۔ ۲۔ بیس اور تیس سال کے درمیان: عبدالرحمن بن عوفؓ ، بلالؒ ، صہیبؓ۔ ۳۔ تیس اور پینتیس سال کے درمیان: ابوعبیدہ ابن ِالجراحؓ، زید بن حارثؓ، عثمان غنیؓ، عمر فاروقؓ۔ اس تاریخی حقیقت کی بنا پر جس کی شہادت قرآن حکیم پیش کر رہا ہے، علامہ بجا طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ امت ِمسلمہ کے مختلف طبقات میں سے صرف نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جو ذوق عمل کی دولت سے مالا مال ہے اور انھی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، اس لیے اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کرلی تھیں۔ مزید برأں قریبی زمانے کی مسلم تاریخ اور ہم عصر مسلم معاشرے کے عمیق مطالعے کے بعد حضرت علامہ نوجوانوں کے سوا، ملت کے تمام گروہوں سے تقریبا مایوس ہوگئے تھے۔ مایوسی کا یہ احساس مختلف اصحاب کے نام مکاتیب اقبال میں خاصا نمایاں ہے۔ آخر زمانے کے ایک خط (بنام چودھری نیاز علی خاں مرحوم) میں ان کی سوچ کا یہ رخ بہت دو ٹوک اور واضح نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں : علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں۔ ذاتی منفعت اور عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں ۔ عوام میں جذبہ موجود ہے ، مگر ان کا کوئی بے غرض راہ نما نہیں ہے۔ چنانچہ اقبال اپنے برس ہا برس کے مطالعے، مشاہدے اور ذاتی تجربے کے بعدا پنی تمام تر توقعات صرف اور صرف نوجوانوں سے وابستہ کرلینے میں حق بجانب تھے۔ ان کے ہاں عشق کے عقل پر ترجیح اور شاہین کی ایک مثالی پرندے کی حیثیت سے تعریف و توصیف اسی نکتے کی تفسیریں ہیں۔ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرلینے کے بعد وہ بے چین ہوئے تو انھی کے لیے ، تڑپے اور مضطرب ہوئے تو انھی کے لیے، دعائیں اور نیک تمنائیں ،امنگیں اور آرزوئیں انھی کے لیے وقف ہوگئیں: جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نورِ بصیرت عام کردے کچھ عجب نہیں کہ اس وقت جبکہ دنیا بھر کے مسلمان ابتلا و آزمائش کا شکار ہیں اور عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حضرت علامہ کی روح آج بھی بے تاب و مضطراب اور اس بات کی منتظر کہ نوجوانوں کے عزائم اور ان کے ارادے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔اکیسویں صدی کے آغاز میں جب متمدن اور ترقی یافتہ مغرب، اقبال کے الفاظ میں ، اک قمار خانہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور زندگی، علامہ کے اس شعر کی تفسیر بن چکی ہے: بے کاری و مے خواری و عریانی و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات مسلم نوجوان دور جدید کا وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسلام کے حیات بخش اور جاں فزا پیغام کی بدولت آج بھی ہر طرح کے ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ ہے ۔ اقبال کی شاعری میں اس نوجوان کی قوت عمل کے لیے ایک مہمیز ہے۔ اقبال دور حاضر کے مسلم نوجوانوں کو تسکین قلب کے لیے منفی زاویوں کی بجائے دین فطرت کا وہ صراط مستقیم دکھاتا ہے ،جو اسلامی انقلاب کی شاہراہ ہے۔ مسجد قرطبہ ، یورپ میں مسلمانوں کی گزشتہ عظمت کی ایک خوب صورت یادگار ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل اس کے پہلو میں بہتے دریا وادی الکبیر کے کنارے حضرت علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا: آبِ روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب مگر یہ سحر عالمِ اسباب میں تاحال بے حجاب نہیں ہوئی۔ اقبال کی چشم ِنگراں آج بھی اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ جب ہم ساقی نامہ کے ان اشعار کو دیکھتے ہیں کہ : خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے تو غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی نسل ہی اقبال کے خواب شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے۔ ٭٭٭



      Similar Threads:

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: علامہ اقبال اور نوجوانان ملت

      JazakAllah


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ اقبال اور نوجوانان ملت






      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •