دہشتگردی کی نئی لہر ... حکومت کیلئے نیا چیلنج
سلمان غنی
فوجی قیادت اور سیاسی حکومت کی جانب سے دہشتگردوں کیخلاف جو آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے اس سے ایک تاثر یہ پیدا ہوا تھا کہ دہشتگردوں کی طاقت کمزور ہوئی ہے ۔ جو ڈر اور خوف آپریشن شروع کرتے وقت عوام کو ردعمل کے نتیجے میں تھا ، وہ بہت زیادہ کھل کر سامنے نہیں آسکا ۔ فوجی قیادت نے بھی یہی تاثر دیا تھا کہ دہشتگردی کے امکانات اب بہت کم ہونگے لیکن واہگہ بارڈر پر دہشتگردی کی بڑی کارروائی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ دہشتگرد وں کو کمزور سمجھنا غلطی تھی ۔ وہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور جہاں چاہیں عوام میں دہشت پھیلاسکتے ہیں ۔ اس کارروائی میں 60 سے زائدافراد شہید ہوئے اس میں رینجرز اہلکار بھی شامل ہیں ۔ اگرچہ چودھری نثار نے صاف کہا ہے کہ انہوں نے پنجاب حکومت کو قبل ازوقت ہی بتادیا تھا کہ محرم میں لاہور میں بڑی دہشتگردی کا خطرہ ہے لیکن صوبائی حکومت کو جس احتیاط سے انتظامات کرنے تھے ، اس میں وہ ناکام ہوئی ۔ وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس خدشہ کو بھی مسترد نہیں کیا کہ کہیں اس حالیہ دہشتگردی کی کارروائی میں خود بھارت بھی ملوث ہے ۔ وزیر اطلاعات کے بقول بیرونی ہاتھ کے معاملے پر بھی تحقیقات کا عمل جاری ہے ۔ اگرچہ طالبان کے تین مختلف گروپوں نے واہگہ بارڈر پر ہونیوالے واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے ، لیکن دیکھنا ہوگا کہ تحقیقات کا جوعمل سامنے آتا ہے اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا ،ممکن ہے کہ اس میں کالعدم تنظیموں کا ہاتھ ہو۔ماضی میں بھی ہماری حکومتیں اور فوجی قیادت کہہ چکی ہے کہ بھارت ہمارے اندرونی معاملات میں پوری طرح سے ملوث ہے اور اسکی مداخلت کے نتیجے میں یہاں دہشتگردوں کو طاقت مل رہی ہے ۔ اس لیے حکومت ضرور بھارت کیساتھ تعلقات کو مضبوط کرے لیکن اس طرح کے معاملات جس میں ہماری سلامتی کے سوالات ہوں اس پر کسی بھی طرح کے دبائو کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنی سکیورٹی کے انتظامات پر بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود سکیورٹی نظام کو موثر نہیں بنا یاجاسکا ۔وزیر داخلہ نے صوبائی حکومت کے حوالے سے جن سیکورٹی معاملات پر کوتاہی کی نشاندہی کی ہے اسکی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ سوال اہم ہے کہ دہشتگرد کس طرح سے جیکٹیں پہن کر شہر میں داخل ہوتے ہیں او رانکی جانچ پڑتال کرنیوالے تمام اداروں کو سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملتا۔ حالیہ دہشتگردی سے دہشتگردوں کو نئی طاقت ملی ہے، اگرچہ پنجاب حکومت نے اس حالیہ دہشتگردی کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کیلئے کمیٹی بنادی ہے ، لیکن یہ کام پہلی بار نہیں ہوا ہر بار اس طرح کے واقعات کے بعد کمیٹیوں کا بننا معمول کا حصہ بن گیا ہے ۔ اب وفاقی اور پنجاب حکومت کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی بجائے اصل چہروں کو سامنے لائے ، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کے ان کارروائیوں کے پیچھے اصل طاقت کون ہے ۔کیونکہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ دہشتگردوں نے اس جگہ کا انتخاب کیوں کیااور ا سکے پیچھے دہشتگردوں کے اصل عزائم کیا تھے یہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے موقع پر جب ہمیںدہشتگردی کی بڑی جنگ کا سامنا ہے تو ایسے میں سول اور ملٹری قیادت کے درمیان تحقیقات کے سلسلے میں مشترکہ تعاون اور کوششوں کی بھی ضرورت ہے ۔ اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ ہماری سیاسی ا ور عسکری قیادت میںکچھ مسائل ہیں اور اس کا نتیجہ ہمیں اداروں کے درمیان ٹکرائو کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اگرچہ حکومت اور فوج کی قیادت کے بقول دونوں فریقین میں مکمل ہم آہنگی ہے لیکن یہ سب کچھ عملی صورت میں ہمیں نظر بھی آنا چاہیے ۔ یہاں لاہور کی عوام اور بالخصوص فوجی قیادت کو بھی داد دینی ہوگی جنہوںنے اگلے ہی دن فوجی پریڈ اور قومی جھنڈے کی تقریب میں لوگوں کو دعوت دی ، عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ دہشتگردوں سے ڈرنے والے نہیں ۔ایسے میں اگر ہماری سیاسی قیادت میںبھی اتفاق پیدا ہوجائے تو اس کے اچھے اثرات ہونگے ۔ کیونکہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن قوتیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دہشتگردی کا مسئلہ محض پنجاب نہیں پورے ملک کاہے ۔ ہمیں قومی سطح پر سکیورٹی نظام کو موثر بنانا ہوگا ،وفاقی اور صوبائی حکومتوںکو غیر معمولی اقدامات کرنے ہونگے ۔ چاروں صوبائی حکومتوں کے درمیان موثر رابطہ کاری اور مشاورت کی ضرورت ہے سانحہ لاہور کی بنیاد پر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یہ واقعہ مزید دہشتگردی کے پھیلائو کا سبب بن سکتا ہے اس لیے یہاں اب حکومت کا بڑا امتحان ہے ، وگرنہ دہشت گردی کی نئی لہر قومی سلامتی کیلئے نئے خطرات لے کر سامنے آئے گی جو ملک کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نوازشریف اگلے ایک دو روز میں چین کے دورہ پر جارہے ہیں جہاں وہ پاور انفراسٹرکچر سمیت مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون کے ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط کرنے کے علاوہ چینی صدر اور وزیراعظم سمیت چینی حکومت کے دیگر ذمہ داران سے ملاقاتیں کرینگے اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سازگا ر ماحول اور دیگر شعبہ جات میں ترقی کے مواقع کے حوالے سے کئے جانے والے حکومتی اقدامات سے آگاہ کریں گے۔ وزیراعظم اور انکی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے منشور کو آگے بڑھانے کیلئے جہاں اندرون ملک اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا وہاں بیرونی محاذ پر اقتصادی سفارتکاری پر کاربند رہتے ہوئے خصوصاً چین ترکی کو ترجیح دی اور مختلف شعبہ جات میں معاہدے کئے خصوصاً چین نے پاکستان میں گہری دلچسپی لی اور تقریباً 35ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ بعدازاں دھرنا سیاست کے نتیجے میں ترقی کے اس عمل کو دھچکا لگا اور بوجوہ چینی صدر کو پاکستان کا دورہ ملتوی کرنا پڑا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے اس دورہ کے نتیجے میں جہاں دو درجن کے لگ بھگ معاہدوں پر دستخط ہونگے وہاں اس امر کا بھی قوی امکان ہے کہ چینی صدر جلدپاکستان کا دورہ کرینگے اور باہمی تعاون سے شروع ہونیوالے بعض منصوبوں کا افتتاح کرینگے۔ چینی وزیراعظم نے اپنے دورہ میں پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ دور کے رشتہ دار سے قریب کا ہمسایہ بہتر ہوتا ہے جو وقت پر کام آتا ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے ان کے اس مشورہ پر عمل شروع کردیا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ چین اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون خطے کی سیاست کیساتھ ساتھ باہمی ترقی کے عمل میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیتا ہے۔ کیونکہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے رشتے خاصے گہرے ہیں۔ چین اور پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات بھی ایک دوسرے کے حوالے سے خالص ہیں اور چین مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks