حافظ کریم اللہ چشتی
امام حسینؓکی جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی ۔اس میں ہر نسل، ہرقبیلے کے سرفروش شامل تھے ۔کربلا میں ازواج و دختران اہل بیت ؓکے کردار کو بھی کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ******* محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے دلوں میں اس واقعہ کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسے تاریخ سانحہ کربلا ـ کے نام سے یادکرتی ہے۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کومیدان کربلا میں تاریخ اسلام کاانتہائی دردناک اوردلوںکوہلاکررکھ دینے والاسانحہ رونماہوا۔یزیدیوںنے نواسہ رسولؐ لخت جگرسیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراؓاورحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ،حضرت امام حسینؓ ،انکی اولاد،اقرباء اوردیگرساتھیوںکوانتہائی مظلومیت کے عالم میں شہید کیا۔تاریخ اسلام میں اوربھی بہت سی جانیں اللہ کی بارگاہ میں قربان ہوئی ہیں ہرشہادت کی اہمیت وافادیت مُسلمّ ہے مگرشہادت سیدناامام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت وشہرت اس لئے بڑھ کرہے کہ کربلاکے میدان میں شہیدہونے والوں کی آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ؐسے خاص نسبتیں ہیں۔یہ داستانِ شہادت گلشنِ نبوت ؐکے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں،تاریخ کے کسی دورمیں بھی امت مسلمہ کربلا کی داستان کوبھول نہیں سکتی ۔ سیدنا حضرت امام حسین ؓ نے اپنی جان تواللہ کے نام پرقربان کردی مگرباطل کے آگے سرنہ جھکایا۔اس معرکہ کے واحدراہنماحضرت امام حسینؓہیں ان کے گردایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم ونسل کے افرادشامل نہیں تھے۔بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی ۔ان میں آزاد،غلام ، عربی ، قریشی،غیرقریشی غرض ہرنسل،ہرقبیلے کے سرفروش شامل تھے ۔واقعہ کربلا میں ازواج و دختران اہل بیت ؓکے کردار کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت سیدہ زینبؓبنت علیؓ خاتونِ کربلاحضرت سیدہ زینب ؓ نے باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ کے گھر5ہجری کوجنم لیا ۔ آپؓ کانام آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں جناب احمدمجتبیٰ محمد مصطفیؐ نے زینب رکھا ۔ روایات میں آتاہے کہ آپؓ کانام آپؓ کی پیدائش کے کئی دن بعدرکھاگیا،آقائے دوجہاں آپؓ کی پیدائش کے وقت سفرمیں تھے سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ نے امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرخداؓ سے کہاکہ وہ بیٹی کانام تجویز کریں ۔ امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ ؓنے کہاکہ میں اس کانام کیسے رکھوں اس کانام تو آقاؐخودرکھیں گے ۔چنانچہ آقاؐجب سفر سے واپس تشریف لائے توآپؐ کویہ خوشخبری سنائی گئی۔آپؐ فوراًسیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ الزہراؓ کے گھرتشریف لے گئے اور حضرت زینب ؓ کوگود میں اٹھاکرپیارکیااور نام (زینبؓ)رکھا۔آپؓ اپنی تمام صفات میں بے مثل تھیں اور حضرت فاطمہ الزہراؓ کی سیرت پاک کاعملی نمونہ تھیں۔ آقائے دوجہاں ؐکوآپؓ سے بہت محبت تھی آپؓ حضورنبی کریمؐ کی آنکھوں کانورتھیں۔آپؓ کے نانا اللہ کے محبوب والدہ خاتون ِجنت حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ ہیں۔آپؓ کے والدحضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ شیرخدا بھائی حضرت سیدنا امام حسن ؓ اورحضرت سیدناامام حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردارتھے ۔ حضرت سیدہ زینبؓ کا نکاح اپنے چچاحضرت جعفرطیارؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ابن جعفرؓسے ہوا۔آپؓ نے زندگی میں بے شمار مصائب برداشت کئے ۔ابھی آپؓ کی عمر6 سال کی بھی نہ ہوئی کہ نانا حضورنبی کریم ؐوصال فرما گئے۔ پھر چند ماہ بعدہی آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا فاطمہ الزہراؓ رحلت فرماگئیں۔جب آپؓ جوان ہوئیں تو والد محترم امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ کی شہادت اورپھربھائی حضرت سیدناامام حسنؓ کی شہادت،ان سب مصائب کی وجہ سے آپؓ کوام المصائب کی کنیت سے پکارا جانے لگا، آپؓ اپنی والدہ کی طرح صابروشاکراور پردے کانہایت خیال رکھتی تھیں۔آپؓ فہم وفراست ، عقل ودانش اورتدبرکی مالک تھیں۔حضرت علی المرتضیٰؓ کے عہدخلافت میں کوفہ میں درسِ قرآن دیاکرتی تھیں، آپ ؓانتہائی غریب پرور تھیں، دنیاوی عیش وآرام کی نسبت آخرت کی زندگی کوترجیح دی ۔ عبادت وریاضت کایہ عالم تھاکہ ساری زندگی کبھی تہجدکی نمازنہ چھوڑی ۔حضرت سیدناامام زین العابدین ؓ فرماتے ہیں کہ واقعہ کربلااوراس کے بعدکے مصائب ان سب کے باوجودحضرت سیدہ زینبؓ نے نماز تہجدکبھی ترک نہ کی ۔جس سے آپؓ کی زہدوتقویٰ کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے ۔حضرت سیدناامام حسینؓ ، آپؓ سے درخواست کرتے تھے کہ اے میری بہن ! میں تجھ سے دعاکی درخواست کرتاہوں اورتم میرے لئے دعاکیاکرو۔واقعہ کربلاکے بعدآپؓ اکثروبیشتریہ دعافرمایاکرتی تھیںالٰہی !آلِ رسولؐ کی اس قربانی کواپنی بارگاہ میں قبول فرما اور ہماری اس قربانی کورائیگاں نہ جانے دے ۔ حضرت سیدناامام حسین ؓ کے ساتھ آپؓ کی محبت بے مثل تھی ہرمشکل گھڑی میں بھائی کا ساتھ دیا۔جب حضرت سیدناامام حسینؓ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو آپؓ ان کے ساتھ روانہ ہوئیں آلِ رسول ؐکی یہ قربانی اللہ پاک نے قبول فرمائی اورتاقیامت ان کے فضائل ومناقب امت محمدیہؐ کی زبانوں پرجاری فرمادئیے۔ کربلاکے میدان میں آپؓ کے صاحبزادوں حضرت محمدؓبن عبداللہ اورحضرت عونؓ بن عبداللہ نے جام ِ شہادت نوش فرمایا۔امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ جب مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے توآپؓ اس وقت اپنے شوہراوربچوں کے ہمراہ کوفہ چلی گئیں۔پھر امیرالمومنین سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ کی شہادت کے بعدحضرت سیدناامام حسنؓ اپنے تمام گھروالوں کولے کرمدینہ منورہ واپس آگئے ،آپؓ ان کے ساتھ مدینہ منورہ آگئیں ۔ جب سیدناحضرت امام حسینؓ مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے توآپؓ کے شوہرحضرت عبداللہ بن جعفرؓ کسی وجہ سے ساتھ نہ جاسکے توانہوں نے دونوں بیٹوں کوماں کیساتھ بھیج دیاواقعہ کربلامیں آپؓ کی آنکھوں کے سامنے آپؓ کے بیٹوں، بھانجوں اوربھائیوں کو شہید کر دیا گیا، آپؓ نے اس موقع پربھی صبرواستقلال کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اوران کی شہادت پرکسی قسم کاماتم نہ کیا۔ المختصرواقعہ کربلاکے بعدحضرت سیدہ زینبؓ کو یزید کے دربارمیں پیش کیاگیاتوآپؓ نے وہاں نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیاجوتاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے ۔ سیدہ زینبؓ کاخطبہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جوسارے جہانوں کاپالنے والاہے اوردرودوسلام حضورنبی کریم ؐاوران کے اہل بیت ؓپر۔اللہ رب العزت کافرمان ہے کہ ان لوگوں کاانجام برُاہے جو بُرے کام کرتے ہیں اور اس کے احکامات کو جھٹلاتے اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔اے یزید! تو نے ہم پرزمین تنگ کردی اورہمیں قیدکیااورتوُسمجھتاہے کہ ہم ذلیل ہوئے اورتوُ برتر ہے تویہ سب تیری اس سلطنت کی وجہ سے ہے اورتونے شایداللہ پاک کافرمان نہیں سناکہ کفاریہ گمان نہ کریں کہ ہم نے ان کے ساتھ جونرم رویہ رکھاہے وہ ان کیلئے بہترہے بلکہ صرف یہ مہلت ہے تاکہ وہ دل کھول کرگناہ کریں پھران کیلئے ایک دردناک عذاب ہے۔ تُونے آلِ رسولؐ اوربنی عبدالمطلب کاناحق خون بہایااورعنقریب توبھی ایک دردناک انجام سے دوچارہوگا۔میں اللہ پاک سے امیدرکھتی ہوں کہ وہ ہماراحق ہمیں دے گااورہم پرظلم کرنے والوں سے بدلہ لے گااوران پراپناقہرنازل فرمائے گا۔ تو عنقریب اپنے گناہوں کے ساتھ حضورنبی کریم ؐکی بارگاہ اقدس میں حاضرہو گا اورجواللہ کے راہ میں شہید ہوئے ان کے بارے میں اللہ ہی کافرمان ہے کہ وہ زندہ ہیں انہیں رزق ملتاہے اورجن لوگوں نے تمہارے لئے تمہاراراستہ آسان کیاوہ بھی عنقریب تیرے ساتھ بربادہونے والے ہیں ۔ اے یزید! اگر توہماری ظاہری کمزوری کوخودکیلئے غنیمت سمجھتا ہے توکل بروزِقیامت تو اپنا کیاہوا پائے گا۔اللہ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا۔اورنہ ہی ہم اس سے کوئی شکوہ کرتے ہیں بلکہ ہم ہرحال میں صابر اور اس پربھروسہ کرنیوالے ہیں تواپنے مکروفریب سے جوچاہے کرلے مگر تو ہرگز ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکے گا اور نہ ہی ہمارے مقام کی بلندی کو چھوسکے گا۔ تیری یہ سلطنت عارضی ہے اور عنقریب منادی کرنیوالا منادی کرے گااورلعنت ہو ایسی قوم پرجس نے یہ ظلم وستم کیا۔پس اللہ پاک کی حمدوثناء ہے جس نے ہمارے پہلوں کاایمان کے ساتھ اورشہادت کے ساتھ خاتمہ فرمایااوروہ نہایت مہربان اوررحم والاہے اورہمارے لئے کافی ہے کیونکہ وہ بہترین کارسازہے۔واقعہ کربلاکے بعدآپؓ نے قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔کثیرروایات میں ہے کہ آپؓ کا وصال ۱۵رجب المرجب ۶۲ھ میں ہواآپؓ اس وقت اپنے شوہرحضرت عبداللہ بن جعفرؓکے ہمراہ شام کی جانب سفرفرمارہی تھیں آپؓ کاوصال دمشق کے نزدیک ہواجس مقام پرآپؓ کا وصال ہواوہ مقام زینبیہ کے نام سے مشہور ہے وہاں پرآپؓ کا مزار پاک مرجع گا ہ خلائق خاص وعام ہے ۔اس کے علاوہ آپ ؓ کاایک مزارمصرمیں بھی بتایا جاتا ہے جبکہ بعض روایات کے مطابق آپؓ کاوصال مدینۃ المنورہ میں ہوا اورآپؓ کا روضہ مبارک جنت البقیع میں ہے ۔ کتب عشق کے دوباب ہیں ایک کربلا دوسرا کوفہ ودمشق ۔کربلا کا باب سیدالشہداء حضرت امام حسینؓ نے لکھا اور کوفہ ودمشق کاباب اُم المصائب سیدہ زینب ؓ نے رقم کیاآپؓ نے واقعہ کربلامیں کبھی علی ؓ کارنگ بھرااورکبھی امام حسینؓ بن کرتسلیم ورضاکے نقوش کوابھارا۔آپؓ نے کوفہ وشام کے دربارمیں جابراوردشمن حکمرانوں کا سامنا کیا جہاں اسلامی شریعت کی توہین ہورہی تھی وہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضہ کوانجام دیا اور کلمٔہ حق بلندکیااپنی حق گوئی اور جدوجہدسے سیدہ زینبؓ نے اسلام کی تعلیمات کوبقاء کی معراج پرپہنچایا۔ سیدہ زینبؓ نازک سے نازک موقع پر بھی حضرت علی ؓ کے جاہ وجلال کے ساتھ حسینؓ بن کربولیں باطل کاسرکچل دیااورحق کابول بالا کر دیا ۔ حضرت سیدہ ام کلثومؓ بنت علیؓ حضرت سیدہ ام کلثومؓ 9ھ میں تولد ہوئیں۔ آپؓ اخلاق واطوارمیں اپنی والدہ سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ اور نانا حضور نبی کریم ؐ سے مشابہ تھیں۔آپؓ کامزا رملک شام میں حضرت سیدہ سکینہ بنت امام حسین ؓ کے مزار سے ملحق ہے اورمرجع گاہ خلائق خاص وعام ہے ۔ اللہ پاک کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری خطائیں معاف ہوں۔ حضرت سیدناامام حسینؓ کی ازواج کی تعدادپانچ ہے جن سے آپؓ کے 6 بچے تولدہوئے ۔ذیل میں آپؓ کی ازواج واولاد کامختصرتذکرہ کیا جا رہا ہے۔ حضرت سیدہ شہربانوؓ آپؓ حضرت سیدناامام زین العابدین ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ خلافت میں جب فارس کاعلاقہ فتح ہوا توآپؓ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں جہاں آپؓ کا نکاح حضرت سیدناامام حسینؓ سے ہوا۔ حضرت سیدہ لیلیٰ ثقفیہ آپؓ حضرت سیدناعلی اکبرؓ کی والدہ اورامام حسینؓ کی شریک حیات تھیں ۔ابی مرہ کی بیٹی تھیں۔ واقعہ کربلامیں موجوداوراسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں،کربلا کے بعد کے آپ کے حالات زندگی نہیں ملتے ۔ حضرت سیدہ ربابؓ آپؓامراء القیس کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت سیدنا عبداللہ المعروف علی اصغرؓ اور حضرت سیدہ سکینہؓ کی والدہ اورحضرت امام حسین ؓ کی رفیق حیات تھیں۔واقعہ کربلامیں موجود اور اسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں۔ اپنے شیرخوار لخت جگر کی شہادت پرصبرکیا۔اللہ پاک ان کے صدقے ہماری خطائیں معاف کرے۔ حضرت سیدہ ام اسحاقؓ آپؓ طلحہ بن عبداللہؓ کی صاحبزادی تھیں۔آپؓ سے حضرت امام حسینؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰؓ تولد ہوئیں۔ حضرت سیدہ قضاعیہؓ آپؓ کاتعلق قبیلہ بنی قضاعیہ سے ہے ۔ حضرت سیدہ سیکنہ بنت الحسینؓ آپؓ حضرت امام حسینؓ کی پیاری بیٹی اورحضرت عباس ؓ(علم دار)کی محبوب ترین بھتیجی تھیں ۔آپؓ حضرت سیدہ ربابؓ کے بطن سے تولدہوئیںاورشہزادہ علی اصغرؓ کی بہن تھیں ۔ واقعہ کربلاکے وقت آپؓ کی عمرمبارک محض 7 برس تھی ۔حضرت سیدناامام حسینؓ کواپنی اس صاحبزادی سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰؓ حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰؓ،حضرت سیدہ ام اسحاقؓ کے بطن سے تولدہوئیں۔جس وقت معرکہ کربلاپیش آیا۔آپؓ اس وقت مدینہ منورہ میں تھیں اور شدید علیل تھیں اللہ رب العزت اہل بیتؓ کے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔آمین ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks