Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
نہ پوچھو دل کہاں پہنچا کسی کو کیا کہیں پہنچا
جہاں پہنچا نہ کوئی یہ وہیں پہنچا وہیں پہنچا

کہاں پہنچا ہے دیکھو ہمدموپیک خیال اپنا
کہ اب تک اس جگہ کوئی فرشتہ بھی نہیں پہنچا

زمیں لرزی ترپنے سے ترے بسمل کے یہ قاتل
کہ آخر اس کا اک صدمہ سر گاوز میں پہنچا

نہ پہنچا تو نہ پہنچا طالب دیدار تک اپنے
تری تکتے ہی تکتے راہ وقت واپسیں پہنچا

چھپا خورشید تاباں شرم سے زیر زمیں جا کر
مری جو آہ کا شعلہ سر چرخ بریں پہنچا

مجھے ڈر ہے نہ پہنچے پہچیوں کے بوجھ سے صدمہ
کہ نازک ہے نہایت ہی ترا اے نازنیں پہنچا

ظفر دامان مژگاں سے ٹپکا چاہے تھا آنسو
اگر پہنچا سکے آنکھوں تلک تو آستیں پہنچا
Nice Sharing.....
Thanks